آئی جی تھانہ کلچر تبدیل نہیں کر سکے تھے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ '' آئی جی تھانہ کلچر تبدیل نہیں کر سکے تھے‘‘ اور ہر آئی جی کو اسی لیے تبدیل کیا گیا تھا اور یہ تب تک تبدیل ہوتے رہیں گے جب تک کہ تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو جاتا کیونکہ تھانہ کلچر کی تبدیلی سے ہی سسٹم تبدیل ہوتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آئی جی کلچر تبدیل کیا جائے بلکہ آئی جی کی تبدیلی سے ہی کسی حد تک تھانہ کلچر تبدیل ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے تھانے والے مزید دلیر ہو جاتے ہیں اور جرائم کی مقدار اور تعداد بھی کم ہو جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر مقدمات درج ہی نہیں کیے جاتے اور تھانے والے دونوں فریقوں سے حق الخدمت وصول کر کے ان میں صلح صفائی کرا دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز کے پروگرام نقطۂ نظر میں گفتگو کر رہے تھے۔
متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عوامی سیاست کرتے ہیں‘ متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ اور ہماری سیاست اس قدر عوامی ہوتی ہے کہ اس سے سب سے زیادہ عوام ہی متاثر ہوتے ہیں اور جب سے ہم نے متاثرین کو تنہا نہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے‘ متاثرین خاصے خبردار ہو گئے ہیں اور اپنے طور پر خود ہی ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دیے ہیں کیونکہ نہ ہم انہیں تنہا چھوڑتے ہیں اور نہ ان کی حالت سدھرتی ہے جبکہ خراب سے خراب تر ہونے لگتی ہے اور یہ چونکہ ہمارے ہی متاثرین ہوتے ہیں لہٰذا اگر ہم انہیں تنہا چھوڑ دیں تو اور کیا کریں کیونکہ اس سے ہمارا اپنا کام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز روشن آباد کے متاثرین سے ملاقات کر رہے تھے۔
صرف تین ماہ میں لاہور خود کہے گا کہ تبدیلی آ گئی ہے: عمر شیخ
سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے کہا ہے کہ ''صرف تین ماہ میں لاہور خود کہے گا کہ تبدیلی آ گئی ہے‘‘ کیونکہ ہمارے پاس ایسے ''وسائل‘‘ موجود ہیں کہ متعلقہ شخص خود ہی سب کچھ بول دیتا ہے، اس لیے لاہور کی کیا مجال ہے جو یہ خود نہ کہے کہ تبدیلی آ گئی ہے، بلکہ اکثر اوقات تو وہ ایک کرشماتی ہتھیار کو دیکھتے ہی سب اگل دیتا ہے، او ریہ جو عہدوں کی تبدیلی کا کھیل ہے تو یہ بجائے خود ایک ایسی تبدیلی ہے کہ مدتوں تک یاد رہے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو میں گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف کی واپسی پر حکومت چورن بیچنے
کی کوشش کر رہی ہے: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی واپسی پر حکومت چُورن بیچنے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ جس میں یہ سراسر ناکام ہو گی کیونکہ ہم یہ چُورن مفت دیتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر انہیں ایک دن کی روٹی بھی ہضم نہیں ہوتی اور ایک دن کی روٹی عوام کو مشکل ہی سے نصیب ہوتی ہے اور جس کی وجہ صرف اور صرف ان کی بدقسمتی ہے حالانکہ وہ اس لحاظ سے خاصے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ انہیں ہماری سرپرستی حاصل ہے؛ اگرچہ یہ بھی انہیں راس نہیں ہے کیونکہ ہمارا دیا ہوا چُورن انہیں ذرا مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے جس میں ہمارا کوئی قصور نہیں بلکہ ان کے معدے ہی ایسے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پیپلز یوتھ کے اجلاس سے گفتگو کر رہے تھے۔
رویے تبدیل کیے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہے: آئی جی پنجاب
نئے تعینات ہونے والے آئی جی پنجاب انعام غنی نے کہا ہے کہ ''رویے تبدیل کیے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہے‘‘ کیونکہ اگر آپ ایک ماتحت کی تعیناتی پر روٹھ کر گھر بیٹھ جائیں تو تبدیلی کیسے آ سکتی ہے اور تبدیلی کسی قربانی کے بغیر نہیں آ سکتی، اگرچہ خاکسار کو بھی لگتا ہے کہ بس چند ماہ ہی کے لیے تعینات ہوا ہے اور اگر یہ چند ماہ بخیر و خوبی نکال گیا تو یہ بھی ایک بہت بڑا واقعہ ہو گا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب افسران حکومت کی طبیعت سے ناواقف ہوتے یا غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ویسے یہ اُن کی مجبوری بھی ہے کہ اگر تبادلے نہ کریں تو اور کیا کریں، ان کے لیے اور تو کوئی کام ہے ہی نہیں اور سارا دن فارغ بیٹھنے سے تو بہتر ہے کہ تبادلے ہی کرتے رہیں۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
آئی جی تبدیلی‘ پی ٹی آئی سسٹم کو درست
کرنا چاہتی ہے:سینیٹر ذیشان خانزادہ
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا ہے کہ ''آئی جی کی تبدیلی، پی ٹی آئی سسٹم کو درست کرنا چاہتی ہے‘‘ جس سے پہلے پولیس کا قبلہ درست کرنا ضروری ہے جبکہ آئی جی کی تبدیلی کے ساتھ ہی 8 افسروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے جن کی جگہ نئے افسر آ جائیں گے جیسے سابقہ آئی جی کے کام چھوڑنے پر نیا آئی جی آ گیا ہے اور جوں جوں افسر کام چھوڑتے جائیں گے ان کی جگہ نئے افسر آتے جائیں گے پیشتر اس کے کہ افسر ختم ہو جائیں جبکہ پارٹی سمجھتی ہے کہ مسلسل تبدیلیوں ہی سے نظام تبدیل ہو سکتا ہے اور وہ بھی صرف پولیس افسروں کی تبدیلیوں سے کیونکہ ان کی تبدیلی کے علاوہ سسٹم کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
اور‘ اب آخر میں نعیم ضرار کی شاعری:
ڈوبے تھے جہاں لوگ سہارے بھی وہیں تھے
بپھرے ہوئے دریا کے کنارے بھی وہیں تھے
سورج نے بہت اپنے تئیں قہر کمایا
جب شام ہوئی سارے ستارے بھی وہیں تھے
ایک تم تھے فقط گردِ زمانہ میں کہیں گُم
میں بھی تھا وہیں‘ رستے تمہارے بھی وہیں تھے
اُس شہرِ گریزاں کو کہاں چھوڑ کے جاتے
ہم درد کے ماروں کے گزارے بھی وہیں تھے
دشمن تو بہر طور تھے دشمن مگر افسوس
چپ چاپ کھڑے دوست ہمارے بھی وہیں تھے
ہم ہی نہ سمجھ پائے شبِ تار کا افسوں
گو صبحِ خراماں کے اشارے بھی وہیں تھے
٭......٭......٭
محشر میں بھی آمادہ و تکرار ہو کوئی
مشکل ہے مرے جیسا گنہگار ہو کوئی
سائے سے کہا ہے کہ پلٹ جائے اُدھر کو
میری طرح شاید پسِ دیوار ہو کوئی
اے دل مرے سینے سے نکل اشکوں کی صورت
آنکھوں کی زبانی ترا اظہار ہو کوئی
میں شہرِ خموشاں میں اٹھا لایا ہوں اشعار
ممکن ہے یہاں اِن کا خریدار ہو کوئی
ہر روز یہاں دیتا ہوں اردو کی اذانیں
آ جائے اگر اس کا طلب گار ہو کوئی
آج کا مطلع
لگتا ہے کہ یہ دن ہی نہیں رات سے باہر
یا بات کوئی اور بھی ہے بات سے باہر