"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ابرار احمد

قائداعظم نے اپنے عزم سے تاریخ کا دھارا موڑ دیا: شہباز 
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''قائداعظم نے اپنے عزم سے تاریخ کا دھارا موڑ دیا‘‘ جبکہ ہم نے اپنی کارگزاریوں سے اس دھارے کو موڑا، بلکہ ہم تو جغرافیے کا دھارا بھی موڑنے والے تھے کہ پھر ہمیں کسی نے کہا کہ اتنی جلدی کی ضرورت نہیں پہلے تاریخ کا دھارا موڑنے دو، جغرافیے کا دھارا بعد میں موڑ لیا جائے گا اور جب ہم جغرافیے کا دھارا موڑنے کے قریب قریب ہی تھے کہ ہمارا تخت ہی الٹا دیا گیا اور جغرافیے کا وہ دھارا ابھی تک ہماری راہ دیکھ رہا ہے اور اس کام کو میاں صاحب لندن سے واپس آ کر پایۂ تکمیل تک پہنچا دیں گے جبکہ تاریخ کا موڑا ہوا دھارا اتفاق سے الٹی طرف بہنے لگ گیا ہے جسے سیدھا بھی ہم ہی کریں گے۔ آپ اگلے روز قائداعظم کی برسی کے موقعہ پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
اسلام آباد والو! تیار ہو جائو ، ہم اقتدار چھیننے آ رہے ہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''اسلام آباد والو! تیار ہو جائو ، ہم اقتدار چھیننے آ رہے ہیں‘‘ اور یہ بھی ہماری مہربانی ہے جو ہم قبل از وقت آگاہ کر رہے ہیں کیونکہ اگر ان کی بے خبری میں اقتدار چھینتے تو یہ کوئی بہادری نہ ہوتی جبکہ ہم نے سارے کام بہادری اور دلیری، بلکہ دیدہ دلیری ہی کے ساتھ کیے ہیں جو ساری قوم اور احتساب ادارے کے سامنے ہیں اور جنہیں ہم نے کبھی نہیں چھپایا جبکہ وہ چھپنے والے تھے ہی نہیں اور علی الاعلان سب کی موجودگی میں کئے گئے تھے۔ اگرچہ وہ سنہری زمانہ نہیں رہا، تاہم صوبائی سطح پر جو بھی دال دلیا ممکن ہے سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز خیرپور ناتھن شاہ میںایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان قائداعظم کے مشن پر کاربند ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عمران خان قائداعظم کے مشن پر کاربند ہیں‘‘ جو کہ ملک کو ان احمق عوام سے نجات دلانا چاہتے ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ہم سارا کچھ کر رہے ہیں لیکن یہ مٹی کے مادھو بن کر بیٹھے ہوئے ہیں، نہ سڑکوں پر آتے ہیں اور نہ ہی کوئی معقول احتجاج کرتے اور مہنگائی، بیروزگاری، عدم تحفظ کے اس طوفان کے باوجود ان کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی اور عمران خان صاحب کی ایک کال پر انہوں نے گھبرانا ہی چھوڑ دیا ہے حتیٰ کہ ہم سب نے خود گھبرانا شروع کر دیا ہے، نیز قائداعظم کا پاکستان پرانا ہو چکا تھا اور اس پرانے والے ملک کو وہ نئے پاکستان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اگلے روز قائداعظم کے یوم وفات پر بیان دے رہے تھے۔
انصاف کی فراہمی کے لیے آخری حد تک جائیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''انصاف کی فراہمی کے لیے آخری حد تک جائیں گے‘‘ جبکہ فی الحال اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہماری یہ آخری حد کہاں تک ہے تا کہ انصاف کی فراہمی کے لیے وہاں تک پہنچا جائے لیکن یہ آخری حد ہم کراس نہیں کریں گے کیونکہ حدیں پھلانگنا ویسے بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے البتہ کچھ نہ کرنے کی آخری حد کا ہمیں اچھی طرح سے علم ہے اور ہم ایک عرصے سے اس حد کو چھو بھی رہے ہیں؛ چنانچہ جونہی ہمیں کچھ کرنے کی آخری حد کا سراغ ملتا ہے، ہم انصاف دلانے کے لیے وہاں تک پہنچنے کے لیے پورا زور لگانے کی کوشش کریں گے اگرچہ آئے دن کے تبادلوں سے ہمارا زور کافی حد تک پہلے ہی خرچ ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں تونسہ کے واقعے کا نوٹس لے رہے تھے۔
زرداری سندھ دھرتی کو کوڑیوں کے مول بیچتے رہے: شہباز گل
معاون خصوصی برائے روابط ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''زرداری سندھ دھرتی کو کوڑیوں کے مول بیچتے رہے‘‘ اور، ساتھ ساتھ سندھ دھرتی کو کوڑیوں کے مول خریدتے بھی رہے، جو اب ان کے اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے ظاہر ہو رہا ہے، اگرچہ کوئی چیز خریدنا یا بیچنا کوئی عجیب یا معیوب بات نہیں ہے لیکن ہمیں اعتراض اتنے سستے داموں بیچنے پر ہے کیونکہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں سندھ کی دھرتی کو سستے داموں بیچ دینا ویسے ہی اچھا نہیں لگتا کہ یہ بجائے خود اُس دھرتی کی توہین کے مترادف ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں مرتضیٰ وہاب کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
وہ خواب نہیں تھا
بادلوں بھری اس رات میں۔۔۔۔۔۔
ایک نیم روشن بالکونی پر
ابھی ابھی میں نے اسے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ جس کا چہرہ،
چاندنی کی طرح جگمگاتا تھا
جس کے ہونٹوں پر پرندے اترتے تھے۔۔۔۔۔۔
جس کے لفظوں میں
راتوں کی خاموشی روتی تھی
اور جس کی جانب،
میں اپنی مر جھائی نیند کے ہمراہ
خود چل کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ جس نے میری بے پناہ تھکن کو آسودگی عطا کی
اور آنکھوں میں آنسو بھر دیے۔۔۔۔۔۔
جس نے مجھے انتظار دیا،
صبر اور حوصلہ۔۔۔۔۔۔
جانے وہ اب کہاں ہے؟
ہر شام کے موڑ پر، میں اسے دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔
یا شاید نہیں۔۔۔۔۔۔
میرے ہاتھ مسلسل اس کی طرف بڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔
کام کاج کے دوران
وہ آرام کے ایک لمحے کی طرح ہے۔۔۔۔۔۔
وہ جو درختوں اور بادلوں کے درمیان کہیں موجود تھا
دودھیا سی ایک عمارت میں۔۔۔۔۔۔
جس کی کھڑکیوں کے پردے
ٹھنڈی ہوا میں ہر وقت ہلا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔
شور کے عقب میں اس کی آواز ابھرتی ہے
یا شاید۔۔۔۔۔۔
کچھ پتا نہیں چلتا۔۔۔۔۔۔
نیون سائن کی بتیاں جلتی اور بجھتی ہیں
ابھی ابھی وہ یہیں تھا اور اب کہیں نہیں ہے
وہ خواب نہیں تھا
مجھے یاد ہے
جب میں نے اس کا خواب دیکھنا شروع کیا
میں اسے دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔!
آج کا مطلع
نہ ہونے والا کوئی ماجرا ہی کافی ہے
کہ جس سے بچ گئے ہم وہ سزا ہی کافی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں