آج نتیجہ خیز تاریخی احتجاج ہوگا: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''آج نتیجہ خیز تاریخی احتجاج ہوگا‘‘ اور یہ جو کہا جا رہا ہے کہ یہ ابو بچائو تحریک ہے تو کیا جس نے پال پوس کر بڑا کیا ہے‘ کیا اسے بچانا فرض نہیں ہے؟ اور چونکہ والدین کا نام روشن کرنا اولاد کا فرض ہے تو یہ انہیں اسی لیے بچا رہے ہیں کہ بعد میں ان کا نام روشن کر سکیں؛ اگرچہ ان کا نام پہلے ہی اتنا روشن ہے کہ یہ روشنی ملک بھر میں بلکہ ملک سے باہر لندن اور دبئی تک پھیلی ہوئی ہے؛ تاہم اسے مزید روشن کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ اگرچہ پہلے بھی انہوں نے اپنا نام خود ہی روشن کیا اور جو کسر رہ گئی ہے اسے اولاد کو پورا کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اے پی سی کا نتیجہ صفر جمع صفر ہو گا: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''اے پی سی کا نتیجہ صفر جمع صفر ہو گا‘‘ کیونکہ اب تو شیخ رشید صاحب نے بھی ایسا کہہ دیا ہے جبکہ خاکسار کا کہا تو یوں سمجھیے کہ سونے پر سہاگہ ہے اور یہ لوگ جو سارا سونا لوٹ کر لے گئے ہیں میں نے اس پر سہاگہ پھیر دیا ہے جبکہ ویسے بھی یہ زرعی ملک ہے اور سہاگہ جلانا ہر کسی کو آنا چاہیے اور جو حضرات اس کی تربیت حاصل کرنا چاہیں وہ خاکسار سے استفادہ کر سکتے ہیں تاہم سہاگہ انہیں اپنا ساتھ لانا ہو گا جبکہ سارا سہاگہ تو کثرتِ استعمال سے ویسے ہی تقریباً ناکارہ ہو چکا ہے جس کی مرمت کے لیے اے پی سی کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ کہیں وہ اپنا سہاگہ ہی نہ جلا دے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ووٹ کو عزت دو: نواز شریف
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور تقریباً مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے پھر کہا ہے کہ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کیونکہ ووٹر کی جو حالت ہم نے کر دی ہے اور اگر اس کو عزت بھی نہیں دی جا سکتی تو یہ سخت زیادتی ہو گی جبکہ ووٹ کو عزت دو کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مجھے عزت دو۔ میرا سیاست والا خانہ خالی ہی رہ گیا ہے جسے پُر کرنے کیلئے میں مریم نواز کو میدان میں اتار رہا ہوں، اگرچہ اس کے حوالے سے میرا سابقہ تجربہ تو کچھ ایسا خوشگوار نہیں ہے کیونکہ مجھے اس حالت کو پہنچانے میں میری کارگزاریوں کے ساتھ ساتھ اور لوگوں کا بھی حصہ ہے اور جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے، اسے بھی لگتا ہے کہ بہت جلد پورا کر دیا جائے گا۔ آپ اگلے روز ٹویٹ کر رہے تھے۔
علاج کرا رہا ہوں، ابھی واپس نہیں آ سکتا:جہانگیر ترین
تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ ''لندن میں علاج کرا رہا ہوں، ابھی واپس نہیں آ سکتا‘‘ تاہم لندن میں علاج اس قدر طویل ہوتا ہے کہ آدمی کی عمر ختم ہو جاتی ہے لیکن علاج ختم نہیں ہوتا اس لیے جب بھی علاج ختم ہو گا فوراً واپس آ جائوں گا جبکہ اُدھر انویسٹی گیشن کیلئے جملہ شوگر مل مالکان کو طلب کیا گیا ہے جس سے میرا زیر علاج رہنا مزید ضروری ہو گیا ہے، حتیٰ کہ نواز شریف کے علاج سے بھی زیادہ ضروری‘ جو اپنے علاج کے علاوہ وہاں کچھ بھی نہیں کر رہے ماسوائے سیر سپاٹے کے جو ان کے علاج ہی کا ایک ضروری حصہ ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ میرے لیے بھی یہاں پر یہی دوا تجویز کی جائے گی کیونکہ یہاں ہر مریض کیلئے یہی دوا شافی ہے۔ آپ اگلے روز جے آئی ٹی کو جواب جمع کرا رہے تھے۔
ایک تعبیر خواب چاہتی ہے
یہ ہمارے کہنہ مشق شاعر منظور ثاقب کا مجموعۂ کلام ہے جسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے شائع کیا ہے۔ انتساب ''قربتوں کے نام‘‘ ہے۔ اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شامل ہر نظم و غزل کا انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے تا کہ انگریزی دان دنیا پر بھی ان کی دھاک بیٹھ سکے۔ یہ ترجمہ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ عاطر نے کیا ہے۔ پیش لفظ بھی مصنف اور مترجم نے لکھے ہیں۔ نمونۂ کلام:
کوئی تو مخمصہ ٹھہرا ہوا ہے
جو اپنا قافلہ ٹھہرا ہوا ہے
صلیبِ شوق کو چوما تھا اک دن
لبوں پر ذائقہ ٹھہرا ہوا ہے
مری آنکھوں سے بہہ نکلے ہیں آنسو
ابھی حرفِ دُعا ٹھہرا ہوا ہے
کوئی اک وقت ہے اس کا معیّن
فلک پر قافلہ ٹھہرا ہوا ہے
شہوں کے منہ پہ سچ کہنے میں ثاقبؔ
قیامت کا مزہ ٹھہرا ہوا ہے
بِجُّو
شہزاد احمد کو بینائی میں کمزوری کا مسئلہ پیش آیا تو انہوں نے نظر کا چشمہ لگوا لیا، جب پہلے دن چشمے لگا کر کالج آئے تو صوفی غلام مصطفی تبسم نے کہا: یہ کیا پہن کر آ گئے ہو، بالکل بِجُّو لگ رہے ہو، جس پر شہزاد بولے: صوفی صاحب! اگر میں اسے اتار دوں تو آپ مجھے بِجُّو لگیں گے!
ناصر شہزاد
ٹی ہائوس میں ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ ناصر کاظمی اور شہزاد احمد جب الگ الگ شعر کہتے ہیں تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن جب دونوں مل کر کہتے ہیں تو کوئی خاص مزہ نہیں آتا۔
اور‘ اب آخر میں رستم نامیؔ کی تازہ غزل:
پُرانے ہو گئے گھر بیٹھے بیٹھے
مرے دیوار اور در بیٹھے بیٹھے
ہمارے ذہن کا حصہ بنا ہے
ہمارے ذہن میں ڈر بیٹھے بیٹھے
پڑی ہے ایسی عادت ٹھوکروں کی
ہمیں لگتی ہے ٹھوکر بیٹھے بیٹھے
میں رہتا ہوں مسافت میں ہمیشہ
سفر کرتا ہوں اکثر بیٹھے بیٹھے
چلی جاتی ہے پھر اُٹھ کر اچانک
خوشی میرے برابر بیٹھے بیٹھے
مبادا بھول ہی جائوں میں پرواز
ہلاتا رہتا ہوں پَر بیٹھے بیٹھے
بہت ہی مشتعل ہونے لگا ہے
مرے اندر سمندر بیٹھے بیٹھے
نہیں کچھ فکر کرنے کی ضرورت
چمکتا ہے مقدّر بیٹھے بیٹھے
پلٹتا رہتا ہوں یادوں کے اوراق
میں نامیؔ روز دفتر بیٹھے بیٹھے
آج کا مطلع
کیا کہنے، اے سرحد پار حسینہ او کترینہ
اک تحفہ ہے تیرے پڑوس میں جینا او کترینہ