مجھے سزا دینے کے لیے ملک ڈبو دیا
یہ تماشا اب نہیں چلے گا: نواز شریف
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''مجھے سزا دینے کے لیے ملک ڈبو دیا، یہ تماشا اب نہیں چلے گا‘‘ اور اس ڈوبے ہوئے ملک سے صرف میں ہی زندہ بچا ہوں اور اسی لیے لندن سے واپس بھی نہیں آ رہا ہوں کہ ایک ڈوبے ہوئے ملک میں واپس جا کر میں نے کیا کرنا ہے جبکہ معاشی طور پر تو یہ ملک پہلے ہی ڈوب چکا تھا کیونکہ اس کی ساری دولت تو لندن اور دبئی وغیرہ پہنچ چکی تھی؛ تاہم اگر مجھے ڈوبے ہوئے ملک کو بچانے کے لیے بلایا گیا تو میں سب سے پہلے عزیزی شہباز شریف سے ا ُن کے لمبے بوٹ اُدھار لوں گا جس کے ہمراہ کیمرے والے بھی ہوں گے تا کہ میں ملک بچاتا ہوا نظر بھی آئوں۔ آپ اگلے روز لندن سے ٹویٹ پر ایک بیان نشر کر رہے تھے۔
عمران خان نے تاریخی خطاب کر کے
قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہاہے کہ ''عمران خان نے تاریخی خطاب کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا‘‘ جو تاریخی اس لحاظ سے تھا کہ یہ مقررہ تاریخ کو ہی کیا گیا تھا؛ البتہ قوم کا سر کچھ ضرورت سے زیادہ بلند ہو گیا ہے یعنی سر تو بلند ہو گیا ہے لیکن دھڑ بہت نیچے رہ گیا ہے‘ اس لیے اب وزیراعظم سے درخواست کی گئی ہے کہ اپنے خطاب میں ہاتھ ذرا ہولا رکھا کریں تا کہ قوم کا سر جائز حد تک ہی بلند ہو اور اس کا دھڑ اتنا نیچے نہ چلا جائے کہ اسے باقاعدہ ڈھونڈنا پڑے۔ ویسے تو حکومت ہماری کسی بات پر توجہ کم ہی دیتی ہے کیونکہ وہ سماعت کی فضول خرچی کی بھی روادار نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بہت ہو چکا! اب حکومت کو ایک منٹ
بھی نہیں دیں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بہت ہو چکا! اب حکومت کو ایک منٹ بھی نہیں دیں گے‘‘ کیونکہ میں ہمیشہ منٹوں اور دھیلوں میں بات کیا کرتا ہوں کہ میرے نزدیک گھنٹوں اور روپوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے؛ اگرچہ حکومت مجھے خفیہ طور پر پیغام بھیج رہی ہے کہ میں انہیں ایک منٹ کا ٹائم دے دوں کیونکہ انہیں اپنا بسترا بوریا لپیٹنے کے لیے بھی کچھ وقت چاہیے ہو گالیکن جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے پاس ایک منٹ بھی نہیں ہے کیونکہ شیخ رشید کے بقول مجھے کسی وقت بھی سرکاری مہمان بنایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سینئر صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان کو کسی اور نے نہیں‘ عوام
نے وزیراعظم بنایا: فواد چودھری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو کسی اور نے نہیں‘ عوام نے وزیراعظم بنایا ہے‘‘؛ تاہم عوام سے کسی کو بھی الگ نہیں کیا جا سکتا کہ ادارے بھی عوام ہی ہوتے ہیں، کم از کم ان کے اہلِ خاندان کو تو عوام سے الگ شمار نہیں کیا جا سکتا اور یہ سارے مل کر عوام ہی کا ایک جمِ غفیر بنتے ہیں اس لیے وزیراعظم بنانے کے مکمل طور پر اہل ہیں۔ عوام کا یہی حصہ ہمیشہ ہی سے وزیراعظم بناتا چلا آ رہا ہے اور اس ضمن میں ان کے تجربے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور آئندہ بھی وزیراعظم کو یہ عوام ہی بناتے رہیں گے، خاطر جمع رکھیں۔ آپ اگلے روز ایک غیر ملکی نیوز چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔
وزیراعظم نے بھارتی غنڈہ گردی
بے نقاب کر دی: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے بھارتی غنڈہ گردی بے نقاب کر دی‘‘ جبکہ اس سے پہلے بھارت نے ایک بھاری نقاب پہنا ہوا تھا جس سے کوئی پتا نہیں چلتا کہ غنڈہ گردی ہو رہی ہے یا نہیں، حتیٰ کہ وزیراعظم نے آگے بڑھ کر اسے بے نقاب کر دیا اور اب بھارت کو نقاب پوش غنڈہ گرد کہا جا سکتا ہے جبکہ یہ سخت کمزوری اور بزدلی کا مظہر ہے، اس لیے کہ اگر اس نے اگر غنڈہ گردی کرنی ہے تو بے نقاب ہو کر کرے‘ کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا جبکہ غنڈہ گردی کا اپنا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ کھلے بندوں کی جائے تا کہ کسی کو اسے بے نقاب کرنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
کم بخت
ایک طالبہ کالج میں دیر سے پہنچی، جب اس سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو وہ بولی: میں گھر سے نکلی ہی تھی کہ ایک اوباش نوجوان نے میرا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔
لیکن اس کا تمہارے دیر سے پہنچنے کا ساتھ کیا تعلق ہے؟ دوبارہ پوچھا گیا۔ وہ کم بخت چل ہی اتنا آہستہ آہستہ رہا تھا! لڑکی نے جواب دیا۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
اتنا سفر آسان ہمارا بھی نہیں تھا
جب رات بھی تھی اور ستارا بھی نہیں تھا
کس طرح وہ منظر نظر آیا ہے جب اپنی
آنکھیں بھی نہ تھیں اور تماشا بھی نہیں تھا
کیوں دل سے اُترتی ہی نہیں ہے تری صورت
ہم نے تو تجھے غور سے دیکھا بھی نہیں تھا
آواز تھی لہروں کے اُچھلنے کی سراسر
پانی بھی نہ تھا اور کنارہ بھی نہیں تھا
کرتے رہے اک عمر بہت شوق سے‘ ہم کو
اچھی طرح سے کام جو آتا بھی نہیں تھا
ہم کرتے رہے خوار بہت خود کو اُسی میں
زنہار ہمارا جو زمانہ بھی نہیں تھا
اک موڑ پہ ہم مُڑ گئے تھے اپنی خوشی سے
مُڑنے کا جہاں کوئی اشارہ بھی نہیں تھا
جاگے ہوں کہ سوئے ہوئے‘ رہتا ہے وہی یاد
جو وقت کبھی ہم نے گزارا بھی نہیں تھا
دریا تو‘ ظفرؔ‘ مانتے ہیں، سوکھ گیا ہو
کیوں اپنی جگہ پر وہاں صحرا بھی نہیں تھا
آج کا مطلع
اب نہ رہے اعتبار میں تیرے
کبھی تھے ہم بھی شمار و قطار میں تیرے