"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور شعیب زمان کی شاعری

بڑی خوشخبری! پاکستان کی معاشی سمت 
درست ہو گئی: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''بڑی خوشخبری! پاکستان کی معاشی سمت درست ہو گئی‘‘ اور اگر انڈہ چودہ روپے کا ہو گیا ہے تو کوئی بات نہیں‘ اس کا رخ انڈوں کی سمت بھی ہو سکتا ہے جبکہ انڈہ مہنگا ہرگز نہ ہوتا اگر قوم چار مرغیوں اور ایک مرغے والی حکومتی پیشکش کا مثبت جواب دیتی اور اس سے انڈہ اتنا سستا ہو جاتا کہ مفت ملنے لگتا جبکہ اس کے بعد حکومت شتر مرغ سکیم شروع کرنے والی تھی جس کا ایک انڈہ پورے گھر کے لیے کافی ہوتا، انڈہ بالکل ہی ناپید ہو سکتا ہے، جس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ حکومت کی بات نہ ماننے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز چیئر مین واپڈا اور دیگران سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت نے جو تاریخی مہنگائی کی‘ اسے صرف
پیپلز پارٹی سنبھال سکتی ہے: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت نے جو تاریخی مہنگائی کی اسے صرف پیپلز پارٹی سنبھال سکتی ہے‘‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مہنگائی ختم یا کم ہو جائے گی‘ ہم تو صرف اسے سنبھالنے کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ کہیں یہ ضائع نہ ہو جائے بلکہ اس میں اضافے کی کوشش کریں گے کیونکہ جس طرح جمہوریت کا علاج زیادہ جمہوریت ہے‘ اسی طرح مہنگائی کا علاج بھی زیادہ مہنگائی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی کا معاملہ ہم پر چھوڑ دے اور اپنی ساری توجہ اپوزیشن کی خدمت پر مرکوز کرے جس میں نواز شریف کی تقریر اور دیگر معاملات کی وجہ سے دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں اور یہ حکومت کے لیے ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز سکردو میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مکس اچار پارٹی کے رہنما مستقبل 
سے خوفزدہ ہیں: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''مکس اچار پارٹی کے رہنما مستقبل سے خوفزدہ ہیں‘‘ جبکہ ہم مستقبل سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہیں حالانکہ اصولی طور پر ہمیں مستقبل سے زیادہ خوفزدہ ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا مستقبل روز بروز زیادہ مخدوش ہوتا جا رہا ہے؛ تاہم ہم گھبراتے نہیں ہیں کیونکہ گھبرانے کے لیے ابھی ہمارے پاس کافی وقت پڑا ہے کیونکہ گھبراہٹ کا اصل وقت وہ ہوتا ہے جب مستقبل ماضی میں تبدیل ہو جائے، لیکن چونکہ ہمارا اقتدار قائم ہے اس لیے زیادہ پریشانی کی کوئی وجہ نہیں ہے جبکہ ہم تو اس لیے پریشان نہیں کہ جو ہونا ہے‘ وہ تو ہو کر ہی رہے گا خواہ مخواہ پریشان ہو کر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت آئینی نہیں‘ نوبت آئی
تو استعفے دیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت آئینی نہیں،غیر اعلانیہ مارشل لا ہے، نوبت آئی تو استعفے دیں گے‘‘ لیکن افسوس کہ یہ نوبت کبھی نہیں آئے گی کیونکہ یہ ہمیشہ آتے آتے رہ جاتی ہے اس لیے ہم نوبت کا شدت سے انتظار کریں گے اور جہاں تک غیر اعلانیہ مارشل لا کا تعلق ہے تو یہ ہمیشہ اعلانیہ ہونا چاہیے جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے اور جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ان فضول ریلیوں اور جلسوں سے ہماری گلو خلاصی ہو جائے گی جو محض وضع داری کے تحت جاری رکھے ہوئے ہیں اور چونکہ حکومت غیر آئینی ہے اس لیے اسے ہٹانے کے لیے بھی غیر آئینی طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ محاورے کبھی غلط نہیں ہوتے۔ آپ اگلے روز نوابشاہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
زبان کھولی تو کانوں کو ہاتھ لگائیں گے: مراد علی شاہ
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''زبان کھولی تو کانوں کو ہاتھ لگائیں گے‘‘ تاہم فی الحال یہ نہیں بتا سکتا کہ کانوں کو ہاتھ کون کون لگائے گا کیونکہ سرِ دست ہم کانوں کو ہاتھ لگانے والوں کی فہرست مرتب کر رہے ہیں کیونکہ ذرا بھی بے احتیاطی ہو گئی تو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں، اگرچہ میں اپنے ایک بیان میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ پولیس نے ہمارے حکم پر کارروائی کی؛ تاہم کوئی ایسا طریقہ وضع کر رہے ہیں کہ نواز لیگ والوں کے دل میں جو بدگمانی اس سلسلے میں پیدا ہوئی ہے‘ وہ دور ہو جائے اور اس میں اضافہ نہ ہونے پائے کیونکہ استعفوں کے حوالے سے وہ پہلے ہی ہمارے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو چکے ہیں؛اگرچہ ان کے شبہات غلط بالکل نہیں۔ آپ اگلے روز اسمبلی میں سندھ کے جزائر پر سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں شعیب زمان کی شاعری:
میں تو سمجھا تھا کہ ہموار ہوا جاتا ہے
راستا اور بھی دشوار ہوا جاتا ہے
تیرے ہونے سے فقط میں ہی نہیں روشن ہوں
یہ اندھیرا بھی چمکدار ہوا جاتا ہے
اشک بھی آنکھ میں ہے قید کسی جِن کی طرح
دل کو رگڑیں تو نمودار ہوا جاتا ہے
جب بھی دیکھوں کہیں روتے ہوئے لوگوں کا ہجوم
مجھ میں جوکر کوئی بیدار ہوا جاتا ہے
پہرے داری ہے مرے ذمے دراڑوں کی زمانؔ
امتحاں اور مزیدار ہوا جاتا ہے
٭......٭......٭
یوں عقیدت کو نمودار کیا جانے لگا
پائوں چھو کر اسے بیدار کیا جانے لگا
زخم دیوار کو دانستہ دیے جانے لگے
بند کمرے کو ہوادار کیا جانے لگا
عمر بھر چھو نہیں سکتے جو ترے کانوں کو
ایسے جھمکوں کو سزاوار کیا جانے لگا
جب سے لوٹے ہیں ترے در سے اداسی لے کر
ہم فقیروں سے بہت پیار کیا جانے لگا
ہو گیا آنکھ کا پانی بھی معاون اس میں
ہجر دھونے پہ جو اصرار کیا جانے لگا
کچھ دعا اور دوا ساتھ ملانے سے زمانؔ
بانجھ پیڑوں کو ثمر دار کیا جانے لگا
آج کا مطلع
اگر اب بھی مری عزت نہیں کی جا سکتی
صاف کہہ دو محبت نہیں کی جا سکتی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں