"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، یاد کے کنارے اور تازہ غزل

آئین خطرے میں‘، بتانا ہو گا ملک کہاں جا رہا ہے: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''آئین خطرے میں ہے، بتانا ہو گا کہ ملک کہاں جا رہا ہے‘‘ تا کہ اسے کہیں جانے سے روکا جا سکے اور یہ بھی بتایا جائے کہ ملک اپنے آپ ہی کہیں جا رہا ہے یا کوئی اسے کہیں لے جا رہا ہے تا کہ اسے کہا جائے کہ ہمیں بھی ساتھ لیتا جائے کہ اس کے بغیر ہم یہاں کیا کریں گے کیونکہ یہی ہماری نازبرداریاں برداشت کر رہا تھا؛ تاہم یہ بھی دیکھا جائے کہ ملک اکیلا جا رہا ہے یا احتساب کے ادارے کو بھی ساتھ لے کر جا رہا ہے کہیں اسے ہماری خاطر و مدارت کے لیے یہیں چھوڑ کر تو نہیں جا رہا جبکہ آئین اس وقت واقعی خطرے میں ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہم خطرے میں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے قائد کا بیانیہ ہمیں بھی لے کر بیٹھ جائے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
وزرا بیانیے کی جنگ فرنٹ فُٹ پر آ کر لڑیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''وزرا بیانیے کی جنگ فرنٹ فُٹ پر آ کر لڑیں‘‘ کیونکہ بیک فٹ پر لڑنے سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے اگرچہ مطلوبہ نتائج کے حوالے سے ہاتھ شروع سے ہی کافی تنگ چلا آ رہا ہے حالانکہ جملہ شرفا روزِ اول ہی سے حکومت کے ساتھ ہیں اور اب انہوں نے بھی حیران ہونا شروع کر دیا ہے جو تنگ آنے سے پہلے والی منزل ہے جبکہ بیانیے کی جنگ فرنٹ فٹ پر لڑنے سے سارے دیگر مسائل کی جنگ اپنے آپ ہی بیک فٹ پر چلی جائے گی؛ تاہم کام مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے، اور اس خرابی کی اصل وجہ شاید عوام کو گھبرانے سے روکنا بھی ہے کیونکہ بعض کام انتہائی گھبراہٹ ہی کے عالم میں کرنے والے ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز ارکان کابینہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں‘‘ چنانچہ میں اپنے پُرجوش ساتھیوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی حکومت ہے ہی نہیں تو وہ کسے گرانے چلے ہیں اور اپنا وقت ضائع کرنے کے ساتھ میرا بھی وقت ضائع کر رہے ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ خلا پورا کیا جائے اور آگے بڑھ کر حکومت قائم کی جائے اور اگر مجھے اپنا سربراہ بنایا ہے تو یہ بھی میرا استحقاق ہے کہ وزیراعظم مجھے بنایا جائے کیونکہ یہ میری ہی دہشت تھی جس کی وجہ سے حکومت غائب ہو گئی ہے جبکہ میں اس کی پیش گوئی بھی کر چکا تھا‘ میری بزرگی کا تقاضا یہی ہے کہ اس نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شفاف پاکستان کا سفر کسی کو کھوٹا نہیں کرنے دیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''شفاف پاکستان کا سفر کسی کو کھوٹا نہیں کرنے دیں گے‘‘ جبکہ اصل میں تو شفاف پنجاب کہنا چاہیے تھا؛ تاہم میں پنجاب ہی کو پورا ملک سمجھتا ہوں اور ساری بات میرے سمجھنے ہی کی ہے کیونکہ حکومت تو اپوزیشن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے اور ساری اپوزیشن کو جیل بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں جبکہ ملک کا باقی بچا کھچا کام ہم نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، اوّل تو باقی کوئی کام بچتا ہی نہیں ہے کیونکہ اپوزیشن جیل چلی جائے تو باقی کام افسروں کے تبادلوں ہی کا رہ جاتا ہے جو حکومت پہلے ہی حُسن و خوبی سے سر انجام دے رہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
ریاست کے اوپر ریاست‘ پالیسیوں 
کے بارے میں سچ بول رہا ہوں: نواز شریف
مستقل نااہل، سزایافتہ، اشتہاری اور مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ریاست کے اوپر ریاست کی پالیسیوں کے بارے میں سچ بول رہا ہوں‘‘ اور اسے غنیمت سمجھنا چاہیے کہ میں پہلی مرتبہ سچ بول رہا ہوں اگرچہ اس کا کسی کو یقین نہیں آئے گا جبکہ اس وجہ سے میں خود بھی اپنے آپ کو اجنبی اجنبی لگ رہا ہوں، اگرچہ یہ مسئلہ کافی پرانا ہے لیکن جب تک یہ میرے حق میں تھا، مجھے اس میں کوئی عیب نظر نہیں آتا تھا لیکن اب جبکہ میں نے ایک نظریے کا نعرہ لگایا ہے اور اپنے انقلابی ہونے کا اعلان کیا ہے، میری اپنی بھی کایا کلپ ہو گئی ہے اور ساری کی ساری باتیں ایک دم مجھے بُری لگنے لگ گئی ہیں اور خوراک کے علاوہ ہر چیز بدلی بدلی سی نظر آتی ہے۔ آپ اگلے روز شین ہوپ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
یاد کے کنارے
یہ توقیر احمد شریفی کا مجموعۂ نظم و غزل ہے، جیسے ماورا نے چھاپا ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے ''محترم والدین کے نام جن کی دعائیں آج بھی میرے شاملِ حال ہیں، شریکِ حیات کے نام جس کا صبر اور حوصلہ ہمیشہ میرے ہمرکاب رہا ہے، اپنے بچوں کے نام جو میرے لیے باعثِ عزت و وقار ہیں‘‘۔ پسِ سرورق ناصر خالد شریف کے قلم سے ہے جبکہ اندرونِ سرورق سعید الظفر صدیقی اور اقبال راہی نے لکھے ہیں۔ دیباچے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی، اکرم سحر فارانی، ڈاکٹر صغرا صدف اور زاہد شمسی نے تحریر کیے جبکہ پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے ۔ نمونۂ کلام:
عشق کے کھیل میں اب گھات نہیں پہلی سی
دل کے مُہروں میں کہیں مات نہیں پہلی سی
وہ ملا ہے تو ہمیں آج کئی روز کے بعد
بات اتنی ہے کہ وہ بات نہیں پہلی سی
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
ہیں اُسی طرح سے خالی مرے خانے سارے
اور میں کاٹ کے آیا ہوں زمانے سارے
بڑی محنت سے لُغت میں نے بنائی ہے نئی
جس میں رکھے ہیں مگر لفظ پُرانے سارے
تیر میرا کوئی لگنا تھا ہدف پر بھی کہیں
اور، خالی نہیں جانے تھے نشانے سارے
وہی یکسو ہے پریشان خیالی میری
وہی بکھرے ہوئے تسبیح کے دانے سارے
میرے اپنے تو کبھی کام نہیں آ سکتے
خستہ دیوار میں محفوظ خزانے سارے
کھل گئی ہے تری دنیا پہ حقیقت میری
ہیں اسی طرح سے پوشیدہ فسانے سارے
ابھی مرنا تو نہیں چاہتا ہوں میں، لیکن
کھو گئے ہیں کہیں جینے کے بہانے سارے
ہے ان آوارہ ہوائوں میں سکونت میری
کہیں غائب ہوئے ہیں میرے ٹھکانے سارے
ریت سے ریت ہی باہر بھی نکلنی تھی، ظفرؔ
ورنہ اُس نے مرے ذرّات بھی چھانے سارے
آج کا مطلع
مت سمجھو وہ چہرہ بھول گیا ہوں
آدھا یاد ہے آدھا بھول گیا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں