حکمرانوں کے دن گنے جا چکے‘ اپنا بوریا
بستر گول کر لیں: بلاول بھٹو زرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کے دن گنے جا چکے‘ اپنا بوریا بستر گول کر لیں‘‘ اگرچہ چوکور چیز کو گول کرنے میں خاصا وقت لگتا ہے اس لیے انہیں گن کر بتانا پڑے گا کہ ان کے کتنے دن باقی ہیں؛ تاہم اگر بوریا اور بستر اکٹھے گول نہیں کیے جا سکتے تو انہیں چاہیے کہ پہلے بوریا گول کر لیں اور اس کے بعد بستر۔ اس طرح وہ دی ہوئی میعاد میں فارغ ہو سکیں گے البتہ زرداری صاحب سے پوچھنا پڑے گا کہ وہ انہیں کتنی مہلت دیتے ہیں جو وہ پوچھ کر بتا سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے سارے کام روحانیات ہی کے بل بوتے پر کیا کرتے ہیں اور اُن کے لیے کوئی بھی پیش گوئی کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز سکردو میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
سارے جیب کُترے سٹیج پر شور مچاتے
ہیں، سب نے جیل جانا ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''سارے جیب کُترے سٹیج پر شور مچاتے ہیں، سب نے جیل جانا ہے‘‘ اور اگر یہ سڑکوں اور چوراہوں میں آسانی سے شور مچا سکتے ہیں تو انہیں سٹیج کا تقدس پامال کرنا کیوں اچھا لگتا ہے، اس لیے جہاں ہم بوریا بستر گول کر رہے ہیں انہیں بھی جیل جانے کی تیاری کرنی چاہیے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ زیادہ فرض شناسی اور ذمہ داری کا ثبوت کون دیتا ہے۔ ان کے مطابق حکومت کے تو دن گنے جا چکے ہیں‘ ان کے پاس تو دنوں کی مہلت بھی نہیں ہے‘ اس لیے اصولی طور پر انہیں پہلے فارغ اور سبکدوش ہونا چاہیے کیونکہ اپوزیشن کا اصلی گھر جیل ہی ہوتا ہے اور اگر انہیں حکومت وہاں بھیجنا چاہے تو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ آپ اگلے روز وزیراعلیٰ بزدار سے ملاقات اور ڈاکٹروں سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی اور نون لیگ میں
ترجیحات کا فرق ہے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی اور نون لیگ میں ترجیحات کا فرق ہے‘‘ یعنی ملک کے ساتھ جو کچھ وہ فوری طور پر کرنا چاہتے ہیں‘ ہم ذرا آرام سے کرنے کے موڈ میں ہیں اس لیے نون لیگ کو چاہیے کہ اگر دونوں کا مقصد ایک ہی ہے تو بیٹھ کر ترجیحات میں اس حد تک تبدیلی کر لی جائے کہ کوئی ابہام بھی باقی نہ رہے اور مقصد بھی کامیابی سے حل کر لیا جائے۔ بصورتِ دیگر نہ وہ کامیاب ہوں گے نہ ہم‘ اسی طرح ہمیں اُن کو جیل بھیجنے کی جلدی ہے اور انہیں ہمیں گھر بھیجنے کی‘ جبکہ دونوں میں سے ایک چیز نے ضرور ہونا ہے کیونکہ یہ نوشتۂ دیوار ہے، جو ہماری دیوار پر بھی لکھا جا چکا ہے اور ان کی دیوار پر بھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکمرانوں کی رخصتی تک تحریک
جاری رہے گی: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کی رخصتی تک تحریک جاری رہے گی‘‘ کیونکہ پہلے تو ہم نے ان کی الٹی گنتی شروع کر دی تھی اور رخصتی کی تاریخ بھی دے دی تھی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور انہیں اپوزیشن کے جذبات و احساسات کا کوئی خیال اور لحاظ نہیں ہے حالانکہ جمہوریت میں دونوں فریق ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں جس کا تھوڑا سا مظاہرہ ان کی طرف سے اس طرح ہوا ہے کہ وزیراعظم نے ہمیں جیب کترا بنانے پر اکتفا کر لیا ہے ورنہ جیب اور خزانے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ آپ اگلے روز نواب شاہ میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
تسطیر
کتابی سلسلہ کا یہ 9 واں شمارہ ہے جسے ہمارے شاعر دوست نصیر احمد ناصرؔ راولپنڈی سے نکالتے ہیں اور جسے بُک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔ صفحات کی تعداد 653 ہے۔ جبکہ اس کا انصرام گگن شاہد اور امر شاہد نے کیا ہے۔ اسے حسب معمول پاک بھارت کے منفرد تخلیق کاروں کا تعاون حاصل ہے۔ شاعری کی صورت حال کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس میں گلزار کی گیارہ نظمیں اور محمد اظہار الحق کی آٹھ تازہ غزلیں شامل ہیں جبکہ اس میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر ناصر عباس نیّر، جلیل عالی، رشید امجد، محمود احمد قاضی، ناصر بغدادی، مشرف عالم ذوقی، نیلم احمد بشیر، بشریٰ اعجاز، محمد حمید شاہد، سلمیٰ اعوان اور دیگر معتبرین کی تخلیقات بھی شامل کی گئی ہیں۔ متعدد نئے شعراء کو بطورِ خاص متعارف کرایا گیا ہے۔ ''لمسِ رفتہ‘‘ کے عنوان سے متعدد مرحوم ادیبوں کی ڈاکٹر سرور الہدیٰ نے یاد تازہ کی ہے جن میں جمیل جالبی، محمد عمر میمن، انور سجاد اور حمایت علی شاعر شامل ہیں۔ خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ یہ ایک یادگار دستاویز بن گئی ہے۔
اور‘ اب آخر میں حبیب احمد کی شاعری
خیر سے آپ جو جذبات میں آئے ہوئے ہیں
ہم بھی ایسے ہی تھے، اوقات میں آئے ہوئے ہیں
خرچ کیجے مگر، اصراف مناسب تو نہیں
مان لیتے ہیں کہ خیرات میں آئے ہوئے ہیں
آ کسی روز اسے تھوڑی نصیحت کر جا
وسوسے کچھ دلِ کم ذات میں آئے ہوئے ہیں
اتنا چالاک بھی خود کو نہ سمجھ عصرِ رواں
ہم تو دانستہ تری بات میں آئے ہوئے ہیں
میں اکیلا ہوں کہاں دو کے مقابل ٹھہروں
وقت کے ہاتھ ترے ہات میں آئے ہوئے ہیں
٭......٭......٭
یہ راز شاید آپ کے ادراک میں نہیں
انسان گفتگو میں ہے، پوشاک میں نہیں
کیا رنگ روپ ہیں کہ جو اِس خاک میں نہیں
اب گردشیں مگر وہ ترے چاک میں نہیں
کیونکر کوئی سنبھال کے رکھتا ہمیں بھلا
شامل جو ہم کسی کی بھی املاک میں نہیں
پیدا خود آپ کر رہا ہوں اپنے روز و شب
گردش مری زمیں میں ہے، افلاک میں نہیں
زرخیز کیا زمیں نہ تھی اس بیج کے لیے
کیوں فصلِ خواب دیدۂ نمناک میں نہیں
٭......٭......٭
روشنی کا ملا ہے تاج مجھے
یعنی دیکھا ہے اُس نے آج مجھے
کل تو میں نے کسی سے ملنا ہے
جس نے ملنا ہے مل لے آج مجھے
آج کا مقطع
اندر ہی روک رکھا ہے کیا کچھ ابھی ظفرؔ
سینے میں ہے جو شور مچایا ہوا نہیں