عوام کو ریلیف پہنچانا ہماری پہلی ترجیح ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عوام کو ریلیف پہنچانا ہماری پہلی ترجیح ہے‘‘ اگرچہ اپنے سابقین کی ترجیحات کا حشر دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی ترجیح قائم نہیں کریں گے لیکن صرف اس خیال سے کہ روایات کی پاسداری اور ترویج ہی میں لوگوں کی فلاح پوشیدہ ہے‘ ہم نے بھی یہ ترجیحات قائم کرنا شروع کر دی ہیں اور ان کا ویسا ہی نتیجہ بھی نکل رہا ہے اور عوام کے شور وغل سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ کچھ عوام کو شور مچانے اور آسمان سر پر اٹھانے کی بھی عادت پڑی ہوئی ہے جو اچھی بات نہیں ہے اور اس کا قلع قمع ضروری ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ جاری کر رہے تھے۔
سوغات لانے والے جان چھڑائیں
ورنہ مسائل بڑھیں گے: نواز شریف
مستقل نا اہل، سزا یافتہ، مفرور اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''سوغات لانے والے جان چھڑائیں ورنہ مسائل بڑھیں گے‘‘ جبکہ سالہا سال سے ان کے نزدیک سب سے بڑی سوغات میں رہا ہوں جس کی وجہ سے میں نے اس ملک اور اس کے وسائل کو بھی سوغات ہی سمجھا اور جی بھر کے اس سے لطف اندوز ہوا اور اب میری یہ حالت کر دی گئی ہے کہ ملک میں واپس نہیں آ سکتا، آخر بے وفائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے جبکہ یہ سب میری کمائی ہتھیانے کے حیلے بہانے ہیں حالانکہ میں کافی حد تک ان کا انتظام کر چکا ہوں اور ان کے ہاتھ کچھ بھی آنے والا نہیں ہے‘ کوشش کر کے دیکھ لیں، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا! آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن کے زخموں پر مرہم رکھنے آئی ہوں: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کے زخموں پر مرہم رکھنے آئی ہوں‘‘ اگرچہ اس مرہم میں قدرے مرچوں کی آمیزش بھی ہے لیکن یہ مرہم میں نے تیار نہیں کیا جبکہ مجھے بنا بنایا ملا ہے جو میرے پیشرو تیار کر کے گئے تھے اور میں کفایت شعاری کی غرض سے اسی کو کام کام میں لا رہی ہوں تا کہ نئے مرہم پر اٹھنے والے خرچے سے بچا جا سکے؛ تاہم امید ہے کہ اپوزیشن رفتہ رفتہ اس کی عادی ہو جائے گی کیونکہ یہاں پر کوئی بھی کسی چیز کا عادی ہونے میں دیر نہیں لگاتا اور یہ ایک مثبت رجحان ہے۔ آپ اگلے روز ڈی جی پی آر میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
پیداوار کیلئے پسینہ بہانے والوں کا خون بہایا گیا: مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ، مفرور اور اشتہاری سابق وزیراعظم کی مفرور اور سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''آج ملکی پیداوار کے لیے پسینہ بہانے والوں کا خون بہایا گیا‘‘ اگرچہ ہمارے دور میں بھی ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا تھا اور ساری اپوزیشن اسی طرح ان کے حق میں بیان بازی کرتی رہتی تھی کیونکہ بیان دینے کے علاوہ سیاست اب رہ بھی کون سی گئی ہے، خاص طور پر لندن سے تو بیان ہی دیا جا سکتا ہے۔ والد صاحب اپنی خرابیٔ صحت کے باوجود روزانہ بیان پر بیان دے رہی ہیں اور اس بیان بازی سے اُن کی صحت پر اچھا اثر پڑنے لگا ہے جو کہ بجائے خود ایک خوش آئند بات ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان نشر کر رہی تھیں۔
اپوزیشن کا بھان متی کا کنبہ جلد بکھرنے والا ہے: محمود الرشید
پنجاب کے وزیر ہائوسنگ میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کا بھان متی کا کنبہ جلد بکھرنے والا ہے‘‘ اور ہماری ساری امیدیں بھی اسی پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ کچھ خاص ہو تو ہم سے بھی نہیں رہا لہٰذا اسے بھی غیبی امداد ہی سمجھنا چاہیے جبکہ ویسے بھی ہم پر غیبی امداد بارش کی طرح برستی رہتی ہے اور ہم نہایا دھویا بھی اسی بارش میں کرتے ہیں اس لیے جو معززین نون لیگ کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ آنا چاہتے ہیں‘ انہیں پھرتی سے کام لینا چاہیے کیونکہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے جبکہ ایسے احکام کی بجا آوری ہی میں اپوزیشن کے معاملات سنورنے کا کرشمہ موجود ہے جبکہ ہم تو اپنے معاملات مسلسل سنوارتے رہتے ہیں جس کی خود اپوزیشن گواہ بھی ہے۔ آپ اگلے روز واسا لاہور کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتے: بلاول بھٹو زرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عوام کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتے، مہنگائی‘ بیروزگاری ختم کریں گے‘‘ اگرچہ ہمارے صوبے میں بعض پابندیاں لگا کر ہمیں بھی خاصی حد تک بیروزگار کر دیا گیا ہے اور وہ اگلی سی موجیں اب باقی نہیں رہیں اور ہم تقریباً لاوارث ہو کر رہ گئے ہیں، اس لیے اگر عوام بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں تو ہم ایک دوسرے کے وارث آسانی سے بن سکتے ہیں جبکہ ہم مکمل طور پر عوام کے ساتھ ہیں‘ اس طرح نہیں جس طرح اپوزیشن کی تحریک میں دیگر پارٹیوں کے ساتھ ہیں کیونکہ ہم اپنے نفع و نقصان کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور وہ حکومت پر ہم سے دبائو ڈالوا کر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ہم اپنا معاملات سیدھے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز گلگت میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں مسعود احمد کی شاعری
دریا تو موجود ہیں پانی غائب ہے
منظر سے تصویر پرانی غائب ہے
چوری چھپے ہی چھوڑ کے باغ بغیچے کو
آدھی رات میں رات کی رانی غائب ہے
دروازے پر دستک پھر تبدیلی کی
کرداروں کے ساتھ کہانی غائب ہے
استفسار کیا حیرت نے شیشے سے
مشکل سے آخر کیوں حیرانی غائب ہے
بچپن اور بُڑھاپا دونوں حاضر ہیں
جھلک دکھا کر صرف جوانی غائب ہے
لگے ہوئے ہیں رزق ذخیرہ کرنے میں
لیکن اپنا دانہ پانی غائب ہے
پھینک رہا ہوں پتھر ٹھہرے پانی میں
رگ رگ سے مسعوؔد روانی غائب ہے
٭......٭......٭
شکر صد شُکر سائبان ملا
سر چھپانے کو آسمان ملا
انتہا ہے یہ خوش گمانی کی
شہر کا شہر بدگمان ملا
اس جہاں سے نکالنے کے لیے
یہ مجھے دوسرا جہاں ملا
میں نہیں ہوں تو میرے ہونے کا
مُشت بھر خاک سے نشان ملا
یہ بڑھاپا بہت غنیمت ہے
حوصلہ تو ہمیں جوان ملا
جو دیا تھا کبھی صفائی میں
میرے حق میں وہی بیان ملا
آج کا مقطع
بات بے بات بگڑ بیٹھتے ہو اُس سے‘ ظفرؔ
اس طرح سے تو محبت نہیں کی جا سکتی