"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، ’’ایک خرابہ اور‘‘ اور تازہ غزل

ووٹ کو عزت دو کا نعرہ سن کربے حد خوشی ہو رہی ہے: نواز 
مستقل نا اہل ، سزا یافتہ مجرم، مفرور اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''سکردو کے شیروں سے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ سن کر بے حد خوشی ہو رہی ہے‘‘ لیکن یہ اُس خوشی کا عشر عشیر بھی نہیں ہے جو میرے بیانیے پر دوسرے ممالک میں منائی جا رہی ہے ،پاکستان آنا اب تو ایک ڈرائونا خواب ہو کر رہ گیا ہے اور برطانوی حکومت بھی مجھے واپس نہ بھیجنے پر کچھ ڈانواں ڈول سی ہو رہی ہے جبکہ میں ووٹ کو عزت دلا کر ہی یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔آپ اگلے روز لندن میں وہاں کے صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
جتنے ووٹوں کی لیڈ ملی اتنے ہی پُل بنائیں گے: علی گنڈاپور
وفاقی وزیر برائے کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ''جتنے ووٹوں کی لیڈ ملی اتنے ہی پُل بنائیں گے‘‘ اور اگر مطلوبہ پُلوں کی تعداد کم نکلی تو پلوں کے اوپر بھی پُل بنا دیں گے۔ اس لیے پلوں پر سے گزرنے کے شائقین افراد سے امید ہے کہ وہ ووٹ ہمیں ہی دیں گے کیونکہ اس علاقے کو صرف پلوں کی ضرورت ہے جس کا ہمیں فائدہ یہ ہو گا کہ پل بنا کر ہم وہاں کے دیگر مسائل سے الگ رہ کر موج مستی کریں گے کیونکہ باقی سارا ملبہ دوسری جماعتوں پر گر انے کے لیے کافی ہو گا اور جہاں جہاں پلوں کی ضرورت نہیں ہو گی وہاں بھی احتیاطاً پل بنا دیں گے تا کہ اگر مستقبل میں وہاں پلوں کی ضرورت ہو تو کافی تعداد میں موجود ہوں۔ آپ اگلے روز غذر کے علاقے اشکومن میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
ووٹ چوری ہوا تو تماشا دنیا دیکھے گی: مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ووٹ چوری ہوا تو تماشا دنیا دیکھے گی‘‘ کیونکہ جلسوں کی صورت میں جو تماشا ہم نے پہلے لگا رکھا ہے اس سے بھی ایک دنیا لطف اندوز ہو رہی ہے کیونکہ اس میں ایسے ایسے لوگ شامل ہیں کہ تماشا گری ہی جن کا طرۂ امتیاز ہے جبکہ ہمارے بیانیے کی گونج اب امریکا میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ کاش ہم بھی وہاں ہوتے اور ان مناظر کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرتے۔ آپ اگلے روز استور میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہی تھیں۔
ن لیگ کو کرپشن کی نئی فرنچائز قائم نہیں کرنے دیں گے: شبلی 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''نون لیگ کو کرپشن کی نئی فرنچائز قائم نہیں کرنے دیں گے‘‘ اگرچہ ان کے لیے پہلے والی فرنچائز ہی کافی ہے جس نے ہماری بھی مت مار رکھی ہے اور اگر وہ نئی فرنچائز قائم کریں گے تو محض ہمیں پریشان کرنے کے لیے جبکہ ہمیں پریشان کرنے کے نتائج قوم کے لیے کچھ اچھے نہیں ہوں گے، اگرچہ ہمیں پریشان نہ کرنے کے نتائج بھی قوم کے لیے اچھے نہیں ہوتے اور جس طرح حکومت کی ہدایت پر ہم نے گھبرانا چھوڑ دیا تھا، اسی طرح اگر ہمیں کہا جائے گا تو ہم پریشان ہونا بھی چھوڑ دیں گے جس کے لیے شاید مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے کیونکہ ابھی تو سب کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹویٹ پر ایک بیان نشر کر رہے تھے۔
گلگت بلتستان الیکشن کا نتیجہ عمران خان کی 
رخصتی کا آغاز ہو گا: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''گلگت بلتستان الیکشن کا نتیجہ عمران کی رخصتی کا آغاز ہو گا‘‘ اور دو تین سال کے اندر اندر یہ معاملہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ اس لیے صاحبِ موصوف کو چاہیے کہ اپنا بوریا بستر باندھنا شروع کر دیں، جس کے لیے دو اڑھائی سال کا وقفہ کافی ہوتا ہے‘ اگر اس میں سستی کا مظاہرہ نہ کیا جائے لیکن اس حکومت کا کوئی بھروسا نہیں کہ مقررہ مدت میں وہ یہ کام کر گزرے گی جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں پھر سے اس کا آغاز کرنا پڑے گا جبکہ اس وقت تک ہم بھی تازہ دم ہو چکے ہوں گے، اور دو تین سال کے لیے پھر اس کارِ خیر میں مصروف ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور سے اپنا معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
ایک خرابہ اور
یہ ہمارے سینئر شاعر خاور جیلانی کا مجموعۂ غزل ہے جسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے شائع کیا ہے۔ انتساب والدہ محترمہ اور برادرِ خورد رانا شہزاد احمد کے نام ہے۔ دیباچے پرویز ساحر اور ظفر نجمی نے تحریر کیے ہیں۔ پسِ سرورق سویامانا‘ پروفیسر اوساکا یونیورسٹی جاپان اور ڈاکٹر سہیل عباس کی تحسینی تحریریں درج ہیں جبکہ اندرونِ سرورق آفتاب احمد (ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو فیصل آباد) کی رائے درج ہے۔ اشعار بے عیب ہیں اور پختہ کاری سے مملو۔ نمونۂ کلام:
کام کرتا رہا نشتر والا
دل کے اندر مرے اندر والا
ساتھ ہی اپنے مری بینائی
لے گیا آنکھ سے منظر والا
دے مجھے داد مری ہمت کی
اُڑ رہا ہوں میں کٹے پَر والا
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
مل رہا ہے مجھے جتنا بھی زمانہ خالی
میں بیاں کرتا ہوں اپنا ہی فسانہ خالی
رائگانی کے کرشمے ابھی ہوں گے ظاہر
رفتہ رفتہ ابھی ہونا ہے خزانہ خالی
ہے توجہ بھی تغافل ہی کی صورت کوئی
بات کی جگہ نکلتا ہے بہانہ خالی
کبھی یہ بوجھ محبت کا گرا ہی دوں گا
یعنی ہونا ہے کسی دن مرا شانہ خالی
نہ سہی عشق‘ عداوت ہی سے بھر جائے گا دل
مجھے اچھا نہیں لگتا ہے یہ خانہ خالی
جیسا جائوں گا میں ویسا ہی پلٹ آئوں گا
یہاں جس طرح سے ہوتا ہوں روانہ خالی
اپنی دُھن میں اسے گاتا ہوا مر جائوں گا
ہے مرے پاس یہی ایک ترانہ خالی
نہیں بیٹھوں گا کسی اوٹ میں چھُپ کر میں بھی
اور نہیں جائے گا تیرا بھی نشانہ خالی
اسے میں اپنا اثاثہ ہی سمجھتا ہوں، ظفرؔ
ہے مرے پاس جو یہ شورِ شبانہ خالی
آج کا مطلع
شکوہ و شکر نہ کچھ عرض گزاری رہے گی
غیر مشروط محبت ہے‘ یہ جاری رہے گی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں