حکومت کا انتقام بد زبانی اور نواز سے حسد کرنا ہے: مریم نواز
مستقل نااہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''حکومت کا انتقام بد زبانی اور نواز شریف سے حسد کرنا ہے‘‘ کیونکہ جس بلند مقام پر نواز شریف براجمان ہیں اور جو سلوک ان کے بیانیے کے ساتھ ملک میں ہو رہا ہے کہ ساری پارٹی کا ہی تتر بتر ہو کر ایک طرح سے بولو رام ہو رہا ہے، حکومت بھی ایسا ہونے کی آرزو دل میں لیے پھر رہی ہے‘ خدا ایسی سعادتیں اسے بھی نصیب کرے، لیکن یہ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے اور کوئی کسی کی قسمت کا شریک نہیں ہو سکتا اور کسی پر حسد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا۔ آپ اگلے روز گویس میں جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
مہنگائی کا پروپیگنڈا کرنیوالے ناکام ہوں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کا پروپیگنڈا کرنے والے ناکام ہوں گے‘‘ کیونکہ پروپیگنڈا اس چیز کا کیا جاتا ہے جو موجود نہ ہو جبکہ مہنگائی نہ صرف سب کو نظر آ رہی ہے بلکہ عوام اس سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں اور ہم حیران ہیں کہ اب تک اس نعمت سے محروم کیوں رہے، اس لیے یہ پروپیگنڈا کرنے والے اس غیر ضروری معاملے پر اپنا وقت ضائع کرنے سے باز رہیں جبکہ بیروزگاری کے خلاف پروپیگنڈا بھی اسی طرح ناکام ہو گا کیونکہ لوگ جوں جوں بیروزگار ہو رہے ہیں‘ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو رشک بھری نظروں سے دیکھ بھی رہے ہیں کہ اپنی کوششوں سے کیا سے کیا ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں خطاب کے علاوہ فخر امام سے ملاقات کر رہے تھے۔
پی پی شہیدوں کی پارٹی ہے، عوام کو ہمیشہ حقوق دیے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی شہیدوں کی پارٹی ہے، عوام کو ہمیشہ حقوق دیے‘‘ جبکہ ہم شہیدوں ہی کے نام پر ہمیشہ اقتدار میں آتے ہیں اور عوام کی 'خدمت‘ کر کے سرخرو ہوئے ہیں اس لیے دعا ہے کہ خدا ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں ایسی خدمت کے مواقع بار بار فراہم کرے؛ تاہم اس خدمت کی وجہ سے ہمارے خلاف جو مقدمات چل رہے ہیں وہ صرف اور صرف مخالفین کی سازش ہیں اور کچھ نہیں۔ آ پ اگلے روز اسلام آباد میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
چور کو چور اور لٹیروں کو لٹیرا ہی کہیں گے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''چور کو چور اور لٹیروں کو لٹیرا ہی کہیں گے‘‘ کیونکہ ہم نے کبھی چور کو ڈاکو اور لٹیروں کو ٹھگ نہیں کہا اور حفظِ مراتب کا ہمیشہ خیال رکھا ہے اور اس طرح کسی کی حق تلفی نہیں ہونے دی جبکہ ہم حق بحقدار رسید کے بری طرح سے قائل ہیں کیونکہ ہم اچھی طرح سے کسی چیز کے قائل نہیں ہوتے اس لیے چوروں اور لٹیروں کو بھی اپنے اپنے مرتبے پر مطمئن اور خوش رہنا چاہیے جبکہ ہم نے انہیں کبھی جیب تراش نہیں کہا کیونکہ یہ ان کی شان کے خلاف ہے کہ وہ خود بھی ایسے کمتر عہدے کو پسند نہیں کرتے۔ آپ اگلے روز وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر شاہ کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
بلاول کے بیان کا بھی وہی حال کیا‘ جو میرے بیان کا : ایاز
سابق سپیکر قومی اسمبلی اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''بلاول بھٹو کے بیان کا بھی وہی حال کیا ہے جو میرے بیان کا کیا گیا تھا‘‘ حالانکہ میرے بیان کی طرح اس کا بیان بھی صاف تھا اور اس میں نہ تو کسی وضاحت کی ضرورت تھی اور نہ ہی اظہارِ ندامت کی کیونکہ دونوں بیان بہت سوچ سمجھ کر دیے گئے تھے بلکہ میرا بیان تو کچھ زیادہ ہی سوچا سمجھا تھا اور اس پر رد عمل بھی توقعات کے عین مطابق تھا اور جس پر نواز شریف باغ باغ ہو گئے تھے اور مجھے تھپکی بھی دی تھی حالانکہ وہ تھپکی دینے خاصے تنگدل واقع ہوئے ہیں۔آپ اگلے روز بلاول بھٹو کے بیان پر ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
کلامِ فیض احمد فیضؔ(مصور)
اس کتاب میں ہمارے نامور مصوّر اسلم کمال نے ہمارے لیجنڈ شاعر فیض احمد فیضؔکے کلام کو مصوّر کیا ہے۔ وہ ابتدا ہی میں لکھتے ہیں کہ میرے لیے یہ ایک بے مثال اعزاز ہے کہ فیض احمد فیضؔ جیسے عظیم شاعر نے اپنا کلام مصوّر کرنے کی دعوت خود مجھے دے کر مجھے معزز کر دیا۔ اسی طرح کتاب کے آخر میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس نے بھی اپنے بانی کی اس پیشکش پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ کتاب کا انتساب ریٹا وائٹ ہیڈ کے نام ہے۔ کتاب کو بڑی اور شایانِ شان تختی پر آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے اور اسلم کمال نے اس شاہکار کو دو آتشہ بنا دیا ہے جو فیضؔ جیسے بڑے اور یگانہ و یکتا شاعر کے لیے ایک ادنیٰ خراجِ تحسین کی حیثیت رکھتا ہے، گویا کلامِ فیضؔ پر اسلم کمال کا یہ منفرد کارنامہ سونے پر سہاگا ہے جس نے اس کتاب کو یادگار بنا دیا ہے اور جس پر اسلم کمال بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں ع
ایں کار از تو آید و مرداں چُنیں کنند
اور‘ اب آخر میں گُل فراز کی یہ غزل:
ویسے یہ کوئی اتنا بُرا بھی نہیں ہوا
میں کامیاب ایک دفعہ بھی نہیں ہوا
کرنا ہے پہلے وہ جو ہُوا ہی نہیں کبھی
ایسا تو کوئی کام بچا بھی نہیں ہوا
اوروں کی پیروی سے جو کرتا ہوں اجتناب
مرعوب میں کسی سے ذرا بھی نہیں ہوا
تھوڑا بہت بچا کے بھی رکھ لیتا ہوں کہیں
اتنا زیادہ میں کسی کا بھی نہیں ہوا
ویسا بھی دستیاب نہ مجھ کو سمجھ کہ میں
یوں تو راستے میں تیرے پڑا بھی نہیں ہوا
میں پہلا انتخاب نہیں بن سکا کبھی
خوش ہوں اسی پہ‘اتنا گرا بھی نہیں ہوا
جاری و ساری تو نہیں لگتا کہیں‘ مگر
محسوس ہوتا ہے کہ رُکا بھی نہیں ہوا
رکھتا ہوں ایک لپیٹ میں ہر بات میں مگر
سمجھو تو کوئی پہلو چھپا بھی نہیں ہوا
کیا خاص اُس میں ہے جسے ترجیح تو نے دی
کیا ہے جو میرے ساتھ لگا بھی نہیں ہوا
ویسا نہیں ہے جیسی توقع تھی گُل فرازؔ
یہ کام سے کچھ ایسا گیا بھی نہیں ہوا
آج کا مطلع
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں