پی ڈی ایم کے جلسوں سے حکومت جانے والی نہیں: علیم خان
سینئرصوبائی وزیر عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کے جلسوں سے حکومت جانے والی نہیں‘‘ کیونکہ جانے کے لیے حکومت کے پاس اپنا انتظام موجود ہے اور اس کے لیے اسے پی ڈی ایم تو کیا‘ کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حکومت ہر معاملے میں خود کفیل واقع ہوئی ہے جبکہ یہ سعادت کم حکومتوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، نیز حکومت اپوزیشن کی طرح اپنے جانے کی تاریخیں نہیں دے گی اور کسی مناسب موقع پر خود ہی یہ کام کر کے دکھا دے گی؛ تاہم مستقبل قریب میں اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، البتہ حکومت نے بوریا بستر باندھ کے رکھا ہوا ہے تا کہ اس کام میں اسے وقت ضائع نہ کرنا پڑے۔ آپ اگلے روز ایک صوبائی وزیر کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر گفتگو کر رہے تھے۔
جیل میں چُوہوں سے بچا ہوا کھانا دیا جاتا تھا: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''جیل میں چوہوں سے بچا ہوا کھانا دیا جاتا تھا‘‘ اگرچہ میرا کھانا گھر سے آتا تھا جسے میں خدا ترسی کے طور پر چوہوں کے آگے ڈال دیا کرتی تھی کیونکہ چوہے بھی آخر خدا کی مخلوق ہیں جن کے خورو نوش کا حکومت کی طرف سے جیل میں کوئی انتظام نہیں ہے اور وہ اِدھر اُدھر مارے مارے پھرتے ہیں اور کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں ہے اور جب وہ سیر ہو چکتے تھے تو باقی کا بچا ہوا کھانا میرے کام آتا تھا اور مرضی کا کھانا کھا کھا کر وہ کافی تنومند ہو گئے تھے، اور امید ہے کہ دوبارہ بھی اُن کی خدمت کا موقع میسر آئے گا۔ آپ اگلے روز رائیونڈ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی نے دوست
ملکوں کو ناراض کر دیا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی نے دوست ملکوں کو ناراض کر دیا‘‘ جبکہ وہ دوست اپوزیشن کو ناراض کر رہے ہیں کیونکہ ان حالات میں موجودہ اپوزیشن سے زیادہ دوستانہ اپوزیشن اور کون سی ہو سکتی ہے جو محض دوستی کے تحت ہی جلسے جلوسوں کا تکلف کر رہی ہے کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جلسوں سے حکومتیں نہیں جایا کرتیں جبکہ پی ڈی ایم کی صورتحال یہ ہے کہ سب اپنا اپنا دھن بچانے میں مصروف ہیں جنہیں حکومت غصب کرنا چاہتی ہے جبکہ پی ڈی ایم کا سب سے بڑا مسئلہ خود کو متحد رکھنا بھی ہے کیونکہ ایک جماعت کا منہ مشرق کی طرف ہے تو دوسری کا مغرب کی طرف۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں شہید اسلام کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
لیگی رہنمائوں کی ہرزہ سرائی پر افسوس ہے: فیاض چوہان
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''لیگی رہنمائوں کی ہرزہ سرائی پر افسوس ہے‘‘ جو اگرچہ ہماری باتوں کے جواب ہی میں ہوتی ہے کیونکہ سیاست کا اصل مقصد بھی اب یہی رہ گیا ہے اس لیے قسم قسم کی ہرزہ سرائیاں سننے کو ملتی ہیں بلکہ دونوں طرف کے ہر رہنما کا اس ضمن میں اپنا اپنا سٹائل ہے اور اب کافی ورائٹی دستیاب رہتی ہے اس لیے ان پر افسوس کا اظہار کرنا محض وقت ضائع کرنا ہے۔ جبکہ ہمارے پاس تو اب وقت بھی گنا چنا رہ گیا ہے اور پی ڈی ایم ہمارے جانے کی تاریخوں پر تاریخیں دیتی چلی جا رہی ہے۔ ویسے ہر حکومت کوکسی دن جانا ہوتا ہے لہٰذا اس میں کسی قسم کے اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں لیگی رہنمائوں کے بیانات پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے تھے۔
اپوزیشن کو شہریوں کی جانیں خطرے میں
ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو شہریوں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ لیکن چونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے اس لیے وہ ہم سے اجازت لینے کا تکلف نہیں کریں گے اور حسبِ معمول بغیر اجازت ہی یہ کام کرتے رہیں گے؛ اگرچہ یہاں ہر شخص کی جانِ ناتواں پہلے ہی خطرے سے دو چار ہے‘ جس کا سبب کارونا کے ساتھ ساتھ کمر توڑ مہنگائی بھی ہے اور وہ بھی اپوزیشن کے جلسوں کی وجہ سے ہے کیونکہ جوں جوں جلسے منعقد ہوتے ہیں مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے ‘ سو اس خطرے میں اضافے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
الٰہ آباد سے فون
کل رات برادرم شمس الرحمن فاروقی کا فون آ گیا ع
جیسے ویرانے میں چُپکے سے بہار آ جائے
میں ان کی صحت کے حوالے سے فکر مند بھی تھا اور کئی روز سے فون بھی نہیں کر سکا تھا۔ ان کی صاحبزادی مہر افشاں فاروقی نے‘ جو چند سال پہلے ان کے ہمراہ غریب خانے پر تشریف لائی تھیں اور جو ایک ہونہار تنقید نگار بھی ہیں، غالبؔ کی شاعری پر جن کے مضامین کراچی سے شائع ہونے والے ایک بڑے انگریزی روزنامے میں شائع ہوتے رہتے ہیں‘ بتایا کہ وہ آج ہی ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے ہیں اور اب صحت بہتر ہے۔ فاروقی صاحب کے چھوٹے بھائی سے بھی بات ہوئی، وہ لوگ اس وقت میرے اس شعر سے لطف اندوز ہو رہے تھے؎
اتنے بخارات ہیں پیٹ میں
کہ مشکل سے ہوتی ہے پتلون بند
اسی غزل کے دو شعر صاحبِ موصوف نے خود بھی سنائے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
کیا بیاں کیجیے کس درجہ ستائے ہوئے ہیں
یہ جو ہم ہیں کئی راتوں کے جگائے ہوئے ہیں
آزمانے لگے ہیں، آپ جو ہم پر ہی یہاں
یہ سبھی دائو ہمارے ہی بتائے ہوئے ہیں
موج میں اپنی جو ہنس لیتے ہیں، رو لیتے ہیں
کوئی اپنی ہی یہاں بزم سجائے ہوئے ہیں
فکرِ دنیا بھی لگی رہتی ہے دن رات ہمیں
اور، ہم آپ کے بھی ناز اٹھائے ہوئے ہیں
عین ممکن ہے کہ ہو جائے بسیرا ہی یہاں
یہ جو ہم آپ کی دہلیزتک آئے ہوئے ہیں
یہ جو بینائی کبھی کام بہت آتی تھی
اپنی آنکھوں سے یہ پردہ بھی ہٹائے ہوئے ہیں
آ رہی ہے وہی اب کام محبت اپنے
اس بڑھاپے کے لیے ہم جو بچائے ہوئے ہیں
خوابِ امید سے مایوس ہوئے ہیں اتنے
اسے اوڑھے ہوئے ہیں اور نہ بچھائے ہوئے ہیں
ہم بھی کچھ ان سے الگ تو نہیں رہتے ہیں، ظفرؔ
اپنا اپنا جو یہاں ڈھول بجائے ہوئے ہیں
آج کا مطلع
جرمِ دل کی سزا نہیں دیتا
کیوں کوئی فیصلہ نہیں دیتا