اپوزیشن عوام کی زندگیوں سے کھیلنا بند کرے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹرشبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن عوام کی زندگیوں سے کھیلنا بند کرے‘‘ کیونکہ ان کی زندگی مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں پہلے ہی بدتر ہو چکی ہے اس لیے لگتا ہے کہ وہ ان کی زندگی سے نہیں بلکہ ان کی موت سے کھیل رہی ہے حالانکہ اسے زندگی اور موت میں امتیاز روا رکھنا چاہیے ورنہ یہ تومرے کو مارے شاہ مدار والی کیفیت ہو جائے گی جبکہ شاہ مدار کی طرف سے بھی یہ سراسر زیادتی ہے اس لیے ہمیں باقی سارے کاموں سے وقت نکال کر شاہ مدار کا بھی کچھ بندوبست کرنا پڑے گا کیونکہ ایسے عناصر کو کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا، خاطر جمع رکھیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹویٹ پر اپنا بیان نشر کر رہے تھے۔
جلسوں سے نہیں ڈرتے: عبدالعلیم خان
پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ ''جلسوں سے نہیں ڈرتے، کرپٹ جیلوں میں جائیں گے‘‘ اگرچہ جلسوں اور کرپٹ لوگوں کا آپس میں بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن دراصل چولی دامن کا ساتھ ہے جبکہ اپوزیشن تقریباً ساری کی ساری ہی کرپٹ ہے اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ جلسے جلوس بذاتِ خود کرپشن ہی کی ذیل میں آتے ہیں اور یہ لوگ اپنے لیے جیلوں ہی کی راہ ہموار کر رہے ہیں، اگرچہ فی الحال اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی کہ جلسے جلوس کرپشن ہیں یا منی لانڈرنگ، امید ہے کہ جلد اس چیز کا بھی پتا لگا لیا جائے گا۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے‘‘ اور یہ کام جان بوجھ کر نہیں بلکہ مجبوری کے عالم میں کر رہے ہیں کیونکہ جلسے اور جلوس نکال نکال کر بے حال ہو چکے ہیں اور حکومت اپنی جگہ سے ہلنے کا نام تک نہیں لے رہی، اس لییکچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا، آخر کب تک انتظار کرتے اور حکومت جہاں کورونا سے نبرد آزما ہے وہاں خانہ جنگی کو بھی بھگتتی پھرے گی، اول تو خود ہماری پی ڈی ایم میں بھی بہت جلد خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے کیونکہ ہمارا کسی چیز پر اتفاق رائے ہو ہی نہیں رہا جس سے اندر خانے زبردست انتشار اور افراتفری کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز جیکب آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کٹھ پتلی حکومت جیالوں سے خوفزدہ ہے: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کٹھ پتلی حکومت جیالوں سے خوفزدہ ہے‘‘ اگرچہ خود ہماری پارٹی بھی جیالوں سے بری طرح خوفزدہ ہے کیونکہ حالت ہماری بدلی بدلی ہے اور وہ بیچارے تو جیسے خستہ حال پہلے تھے اب اس سے بھی زیادہ ہیں حالانکہ ہمارا پختہ ارادہ تھا کہ خود اپنے سے فارغ ہو کر ہم جیالوں کے حالات بھی بہتر بنانے کی کوشش کریں گے لیکن ہماری حکومت کی میعاد ہی ختم ہو گئی، اس لیے اول تو ہمارے جلسوں میں آتے ہی نہیں اور اگر آئیں بھی تو انہیں اس کا بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ گلگت بلتستان کے جلسوں میں تو انہوں نے ہماری جیبیں ہی خالی کرا دی تھیں لیکن ووٹ پھر بھی نہیں دیئے تھے ۔آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ پیغام نشر کر رہے تھے۔
کبھی کسی کی کردار کشی نہ کریں: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''کبھی کسی کی کردار کشی نہ کریں‘‘ اور میری یہ درخواست پیپلز پارٹی سے ہے جو میری کردار کشی بلکہ سیاست کشی کے لیے آصفہ بھٹو کو میدان میں لا رہی ہے حالانکہ انہیں میری سیاست کے کسی منطقی انجام تک پہنچنے تک انتظار کرنا چاہیے تھا جبکہ اس میں بھی کچھ زیادہ دیر کا امکان نہیں ہے لیکن انہوں نے جلد بازی اور بے صبری کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ ان کی نیت میں مجھے پہلے دن سے ہی کچھ فتور نظر آ رہا تھا اور میرا اس روز ہی ماتھا ٹھنکا تھا جب بلاول بھٹو زرداری نے والد صاحب کے بیانیے کے بارے میں بیان دیا تھا۔ آپ اگلے روز شہباز شریف کی پیرول سے رہائی کے بعد جاتی امرا روانہ ہو رہی تھیں۔
عرابچی سو گیا ہے
یہ ممتاز نظم گو نصیر احمد ناصر کا مجموعۂ نظم ہے جسے تسطیر پبلشرز لاہور نے چھاپا ہے، انتساب زمین کے نام ہے جو ابتداً پانی تھی۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر کے ساتھ یو ایس اے سے ساندرا فائولر کی اور اندرون سرورق ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر ستیا پال آنند‘ ڈاکٹر فہیم اعظمی، ناصر شہزاد، آغا گل، محمد صلاح الدین پرویز، محمود شام اور ڈاکٹر احمد سہیل کی تحسینی آراء درج ہیں۔ ابتدائیہ شاعر کا بقلم خود ہے۔ انتساب کے نیچے درج ان کی نظم ملاحظہ ہو:
زمیں زادے!
تجھے تو کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا
سقاوہ کب سے خالی ہے
نہ اوپر ابرِ باراں ہے
نہ اب زیرِ زمیں آبِ بقا ہے
عالمِ فُطرات غائب ہے
نباتاتی تبسم کھو گیا ہے
تابکاری خواہشوں کا بول بالا ہے
اور، اب آخر میں ڈاکٹر نبیل احمد نبیل کی غزل:
جھانک کر سو بار اپنے دل میں دیکھا ٹھیک ہے
اپنی خواہش ٹھیک ہے اپنا ارادہ ٹھیک ہے
مہربانی آپ کی پوچھا ہے مجھ سے میرا حال
شُکر ہے اُس ذات کا فی الحال بندہ ٹھیک ہے
جب گزرتا ہوں تو مجھ سے پوچھتا ہے اک شجر
میں بھی کہہ دیتا ہوں اُس کو ہر پرندہ ٹھیک ہے
ٹھیک ہے کیا ایک ہی حالت میں رہنا ہر گھڑی
روتے رہنا ہر گھڑی، آنسو بہانا ٹھیک ہے!
دیکھتا ہوں جب بھی دنیا کو تو لگتا ہے مجھے
اُ س نے جس بھی حال میں جس کو ہے رکھا ٹھیک ہے
فیصلہ اس کا ہوا ہے اور نہ ہو گا عمر بھر
دوستو کیا کیا غلط ہے اور کیا کیا ٹھیک ہے
جس کو کہتے ہیں بُرا اس عہد کے انسان بھی
شکل و صورت سے تو وہ انسان لگتا ٹھیک ہے
مدتوں سے ایک ایسے گھر میں میں آباد ہوں
بام و در جس کے نہ کوئی بھی دریچہ ٹھیک ہے
آپ کی تقسیم پر راضی ہوں میں اس بار بھی
آپ نے جتنا دیا ہے مجھ کو حصّہ، ٹھیک ہے
ٹھیک ہے انداز کیا یوں بات کرنے کا بھلا
آپ ہی کہیے بھلا یہ سخت لہجہ ٹھیک ہے
دور کے سر سبز منظر یہ بتاتے ہیں نبیلؔ
اس کی جانب جانے والا سارا رستا ٹھیک ہے
آج کا مقطع
پانی سا بہتا پھرتا تھا میں پانی کے ساتھ ظفرؔ
کوئی بہت منہ زور لہر تھی جس نے مجھے اچھال دیا