"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور منیر جعفری کی غزل

جنوری آ کر گزر جائے گا اور عمران خان
کی حکومت نہیں جائے گی: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''جنوری آ کر گزر جائے گا اور عمران خان کی حکومت نہیں جائے گی‘‘ البتہ فروری ذرا مشکل مہینہ ہوتا ہے ‘اس کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا، تاہم جنوری تک بھی کافی وقت موجود ہے کیونکہ شیر کے لیے تو ایک دن کی زندگی بھی کافی ہوتی ہے اور وہ اسی پر مطمئن بھی ہوتا ہے اور گیدڑ کی زندگی جینا نہیں چاہتا‘ تاہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اگلے روز چمن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت ٹس سے مس نہیں ہونے والی: فردوس عاشق اعوان 
معاون خصوصی اطلاعات پنجاب فردوش عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''دھمکیوں سے حکومت ٹس سے مس نہیں ہونے والی‘‘ بلکہ ڈٹ کر کھڑی ر ہے گی جس کا موقع اسے بہت سے پاپڑ بیلنے کے بعد ملا ہے جس سے ملک عزیز میں پاپڑوں کی ریل پیل ہو گئی ہے اور عوام مہنگی روٹی کی جگہ پاپڑ ہی استعمال کرنے لگے ہیں جب تک کہ یہ آئوٹ آف سٹاک نہیں ہو جاتے، اس لیے اگر اپوزیشن دھمکیوں کے بجائے پیار محبت سے کام لے تو حکومت مائل بھی ہو سکتی ہے جبکہ دھمکیاں بھی پھوکی دھمکیاں ہی ہیں جو دیتے چلے جاتے ہیں حالانکہ ذرا عقلمندی سے کام لیں تو کوئی مقصد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
ارشد ملک نواز شریف سے معافی مانگ
کر ضمیر کا بوجھ ہلکا کر گئے: مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزدی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ارشد ملک نواز شریف سے معافی مانگ کر ضمیر کا بوجھ ہلکا کر گئے‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف معافی مانگ کر کب اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں، لیکن نہ صرف وہ خود اپنے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ ہمیں بھی اس میں جھونک رکھا ہے اور ہم ہر جگہ اس مشکل کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ پارٹی کے پلے بھی کچھ نہیں رہا کیونکہ اگر پارٹی میں ذرا سی بھی جان باقی ہوتی تو وہ دوسرے لوگوں کو اپنا لیڈر مان کر جلسوں جلوسوں کا ارتکاب نہ کرتی، حالانکہ ضمیر کے بوجھ سے وہ کبڑے ہو چکے ہیں اور ان سے اچھی طرح چلا بھی نہیں جاتا۔ آپ اگلے روز جلسۂ لاہور کے حوالے سے خواتین سے ملاقات کر رہی تھیں۔
جو حکومت کو چلا رہے ہیں بات ان سے ہو گی: جاوید لطیف
نواز لیگ کے رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''جو لوگ حکومت کو انگلی پکڑ کر چلا رہے ہیں بات ان سے ہو گی‘‘ ویسے تو ان سے بات ہوتی ہی رہتی ہے کیونکہ ان کے بغیر گزارہ ہی نہیں ، اگرچہ ان کے ساتھ دیگر امور پر گپ شپ ہوتی رہتی ہے البتہ موجودہ صورتحال پر بات اس لیے نہیں ہوئی کہ انہوں نے جب پوچھا ہے کہ آپ سب مل جل کر کیا کر رہے ہیں تو ہم انہیں کیا بتائیں کہ ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں کون چلا رہا ہے، اگرچہ اس بارے بھی وہ خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اس کی پروا ہی نہیں کی اور نہ ہی وہ انہیں کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
استعفوں کا فیصلہ نواز لیگ تنہا نہیں کرے گی: محمد زبیر
نواز لیگ کے رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''استعفوں کا فیصلہ نواز لیگ تنہا نہیں کرے گی‘‘ کیونکہ یہ اتنی بیوقوف نہیں ہے کہ خود اسمبلیوں سے فارغ ہو جائے اور شریک اسی طرح موجیں مارتے رہیں کیونکہ اور کوئی بھی جماعت یہ حماقت نہیں کرے گی کہ عوام نے انہیں قانون سازی کے لیے بھیجا ہے، استعفے دینے کے لیے نہیں جبکہ استعفوں کے بعد دوبارہ منتخب ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا کیونکہ ووٹروں کو بیانیے سے پہلے ہی مایوس اور متنفر کر رکھا ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ؎
آدھی چھوڑ ساری کو جائے
آدھی ملے نہ ساری پائے
آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
یہ اپنے اپنے ابا جی بچانے کے لیے
کورونا پھیلا رہے ہیں: فیاض چوہان
پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''یہ اپنے اپنے ابا جی بچانے کے لیے کورونا پھیلا رہے ہیں‘‘ حالانکہ ایک وقت میں ایک ہی کام کرنا چاہیے اور کورونا پھیلانا چونکہ نسبتاً آسان کام ہے اس لیے انہیں اسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے تھی، یا صرف اپنے اپنے ابا جی بچانے کی کوشش کرتے، حالانکہ اس سلسلے میں جو کچھ کرنا ہے احتساب کے ادارے اور عدالتوں ہی نے کرنا ہے۔ حکومت تو اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کر سکتی، البتہ بھبکیوں میں کوئی کمی نہیں آنے دے رہی کہ ہم کسی صورت این آر او نہیں دیں گے اور اپوزیشن ان دھمکیوں کو صحیح بھی سمجھ رہی ہے اور قانون سازی کے ہر معاملے میں بھی افہام و تفہیم کی شرط لگا دیتی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں منیر جعفری کی یہ غزل:
صحرا سے پوچھتا ہے کوئی سوگوار پیڑ
کیا اَب بھی ڈھونڈتے ہیں مجھے سبزہ زار، پیڑ؟
مٹی میں اتنی تاب کہاں پیڑ بن سکے
دیوار سے نکال کوئی سایہ دار پیڑ
تہذیب اپنی آپ نمو کر رہی ہے آج
پیپل سے اُگ پڑے ہیں کھجوروں کے چار پیڑ
بڑھتے چلو کہ راہ نکل آئے خود بخود
اُگتے ہیں جیسے دوست سرِ کوہسار پیڑ
پھولوں کی جستجو میں ہتھیلی ہے تار تار
دنیا ہو جیسے دست میں اک خاردار پیڑ
بوئے ہیں میں نے بیج روّیوں کی فصل کے
دیکھے گی اگلی نسل جہاں بے شمار پیڑ
اے وقت، اے عظیم درختوں کی خود نوشت
فہرست میں ہے اب بھی کوئی شاندار پیڑ
اس نے چھوا تھا باغ میں بس ایک پیڑ کو
اب تک کھڑے ہوئے ہیں وہاں مشکبار پیڑ
گو تم نے اپنی ذات کے عرفان کے لیے
انسان کی بجائے کیا اختیار پیڑ
تاریخ انقلاب کی محتاج کب ہوئی
پتھر سے اُگ پڑے ہیں کئی شاہکار پیڑ
وحشت کی تیز دھوپ نے جھُلسا کے رکھ دیا
یا رب کوئی فلک سے ہی مجھ پر اُتار پیڑ
ہجرت کے وقت باپ نے مجھ سے کہا منیرؔ
ساماں تو سب سمیٹ لیا اور یار، پیڑ؟
آج کا مطلع
کیا بیاں کیجئے کس درجہ ستائے ہوئے ہیں
یہ جو ہم ہیں کئی راتوں کے جگائے ہوئے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں