اب بات حکومت سے نہیں‘ اداروں سے ہو گی: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''اب بات حکومت سے نہیں‘ اداروں سے ہو گی‘‘ اگرچہ بات چیت تو ان سے پہلے بھی ہوتی رہتی ہے جو حال چال پوچھنے اور بتانے تک ہی محدود رہتی ہے لیکن اب ان سے یہ بات ہو گی کہ نظرِ کرم ہم پر سے کیوں اٹھا لی گئی ہے کیونکہ ہم سے زیادہ فرمانبردار تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا اور جہاں تک ہمارے قائد کے خیالات کا تعلق ہے تو وہ قابلِ معافی ہیں کیونکہ جو صدمے انہیں پہنچے ہیں ان کی وجہ سے ان کی طبیعت درست نہیں رہی جس کی صحت یابی کے لیے آپ کی نیک تمنائوں اور دعائوں کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے والے آج
ذاتی مفاد کے لیے متحد ہیں: فیاض چوہان
وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے والے آج ذاتی مفاد کے لیے متحد ہیں‘‘ لیکن اسے آرام کا وقفہ سمجھنا چاہیے کیونکہ آئندہ الیکشن کے موقع پر یہ پھر ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے تیار ہوں گے بلکہ اس سے بھی پہلے یہ نوبت آ جائے گی کیونکہ پیپلز پارٹی استعفے نہیں دے گی اور یوں ممکن ہے کہ یہ ایک بار پھر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں، انہیں ہماری بھول جائے گی اور اپنی اپنی پڑ جائے گی جبکہ ہم بھی اسی امید پر زندہ ہیں کیونکہ ہم نے امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت رکاوٹیں کھڑی نہیں کر رہی‘ چوروں
کا چورن بکنے والا نہیں: فردوس عاشق
وزیر اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''حکومت رکاوٹیں کھڑی نہیں کر رہی‘ سزا یافتہ چوروں کا چورن بکنے والا نہیں‘‘ بلکہ حکومت تو ان کے لیے سہولتیں پیدا کر رہی ہے اور جلسہ گاہ میں پانی اس لیے چھوڑا گیا ہے کہ وہاں سوکھی ہوئی گھاس کے بجائے تر و تازہ گھاس ان کا استقبال کرے جو خود انہیں بھی تر و تازہ رکھے۔ اور چورن بیچنے کی ضرورت انہیں اس لیے نہیں ہے کہ جلسہ ختم ہوتے ہی حکومت تو گھر چلی جائے گی اور چورن کی ضرورت خود انہیں اپنے لیے ہو گی کیونکہ حکومت کے جانے کی خوشی میں وہ جس بسیار خوری کا مظاہرہ کریں گے، اسے ہضم کرنے کے لیے یقینا انہیں چورن اور پھکیوں کی ضرورت در پیش ہو گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے خصوصی بات چیت کر رہی تھیں۔
کرسی کی چولیں ہل چکیں، ایک دھکے کی ضرورت: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کرسی کی چولیں ہل چکیں، ایک دھکے کی ضرورت ہے‘‘ اگرچہ یہ کرسی ہماری قسمت میں نہیں ہے جبکہ اس کرسی کا ہمیں کوئی فائدہ بھی نہیں ہے جس کی چولیں ہلی ہوئی ہوں کیونکہ ہمارا بار تو ایک صحیح و سالم کرسی بھی خال خال ہی سہار سکتی ہے، علاوہ ازیں جس ایک دھکے کی ضرورت ہے وہ کہاں سے آئے گا کیونکہ آپس کا اتفاقِ رائے ہی مفقود ہے کہ جہاں تک استعفوں کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی کے علاوہ میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے ہی جب استعفے نہیں دیں گے تو یہ سارا کھیل ہی فلاپ ہو کر رہ جائے گا اور اگر ہم خود بھی رکن اسمبلی ہوتے تو استعفیٰ دینے سے پہلے سو بار سوچتے۔ آپ اگلے روز پی ڈی ایم کے خصوصی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
حکومت خود جانے والی، لاہور جلسے سے
اس کی جان نکلی ہوئی ہے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''حکومت خود جانے والی، لاہور جلسے سے اس کی جان نکلی ہوئی ہے‘‘ اس لیے جلسۂ لاہور ہمیں سب سے پہلے کرنا چاہیے تھا تا کہ حکومت کی جان پہلے ہی نکل جاتی جس میں خواہ مخواہ کی تاخیر ہو گئی ہے اور اس تاخیر کے لیے میں عوام سے معذرت چاہتی ہوں کہ انہیں مزید اتنے دن حکومت کو برداشت کرنا پڑا؛ تاہم دیر آید درست آید، کیونکہ اس دوران میں نے حکومت کی ریہرسل ایک بار پھر کر لی ہے، اور اس تقریب میں عوام کے دِلوں کی دھڑکن نواز شریف بھی شریک ہوں گے جو کافی عرصے سے وطن واپسی کے لیے بے تاب تھے، اس لیے عوام کو دہری مبارک ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے خصوصی اجلاس سے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اس نظام کو نہیں چلنے دیں گے: خواجہ آصف
نواز لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے ''قسم کھا کر کہتا ہوں اس نظام کو نہیں چلنے دیں گے، جان چھڑا کر دم لیں گے‘‘ اور قسم کھانے کی ضرورت بھی اس لیے پڑی ہے کہ کوئی ہماری بات کا اعتبار ہی نہیں کرتا؛ اگرچہ قسم اٹھانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ قائد محترم کی طرح ہمارا بھی ہر بیان سیاسی ہوتا ہے جبکہ ہماری قسمیں سچی بھی ثابت ہوتی ہیں، مثلاً ہمارے پارٹی صدر میاں شہباز شریف جو قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن بھی نہیں کی، تو وہ سو فیصد سچی ہوتی ہیں کیونکہ دھیلا تو رائج الوقت سکہ ہے ہی نہیں، اسی طرح ان کی طرف سے ایک پائی کی کرپشن نہ کرنے کی قسمیں بھی سو فیصد سچی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
اور‘ اب آخر میں محمد عثمان ناظر کی غزل:
اسی لیے اُن کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں
ہماری آنکھوں میں خواب اوندھے پڑے ہوئے ہیں
شمار کرنا تو خیر ممکن نہیں ہے‘ تاہم
بہت سے غم ہیں جو الٹے سیدھے پڑے ہوئے ہیں
مری جدائی سے فرق تو کچھ نہیں پڑا ہے
تمہارے کانوں میں اب بھی جھمکے پڑے ہوئے ہیں
کہیں سیاہی، کہیں پہ ٹُوٹا قلم پڑا ہے
کہیں پہ خط تو کہیں لفافے پڑے ہوئے ہیں
جو چُوم کر معتبر ہوئے ہیں تمام رستے
ہمارے پیروں میں ایسے چھالے پڑے ہوئے ہیں
تمہاری یادوں کی باس کمرے میں ناچتی ہے
ہر ایک کمرے میں ٹوٹے سپنے پڑے ہوئے ہیں
تمہارے جانے سے اب اداسی کو شہ ملے گی
ہر ایک منظر کے رنگ پھیکے پڑے ہوئے ہیں
کثیلے منظر میں مردہ اجسام کے برابر
پرانے تھیلوں میں میلے جذبے پڑے ہوئے ہیں
خدا کرے خیر‘ میں نے کل شب یہ خواب دیکھا
بلائوں کے سامنے کلیجے پڑے ہوئے ہیں
ابھی نہ جائو خدا کے بندے کہاں چلے ہو
ابھی تو دل میں ہزاروں شکوے پڑے ہوئے ہیں
آج کا مقطع
عبور کر کے ہی اس کو بتا سکوں گا ظفرؔ
ابھی یہ کہہ نہیں سکتا ہوں کیا رکاوٹ ہے