اگر استعفے دے دیے تو ضمنی الیکشن بھی
نہیں ہونے دیں گے: لطیف کھوسہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ''اگر استعفے دے دیے تو ضمنی الیکشن بھی نہیں ہونے دیں گے‘‘ اور ظاہر ہے کہ یہ اگر‘ اگر ہی رہے گا کیونکہ ہم اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ جو سیٹیں ہیں‘ وہ بھی چھوڑ دیں اور حکومت بھی، جبکہ دوسری جماعتوں کے پاس تو کھونے کے لیے صرف چند ایک نشستیں ہیں اور اگر ان میں سے کسی کے پاس بھی حکومت ہوتی تو وہ جماعت استعفوں کا نام بھی نہ لیتی، اس لیے اگر ہم استعفے نہیں دیں گے تو اس کے بعد دوسری جماعتیں بھی استعفے نہیں دیں گی اور اس طرح ضمنی الیکشن کا سوال پیدا ہی نہیں ہو گا اور اس طرح پی ڈی ایم کا اونٹ بھی اپنی کروٹ بیٹھ جائے گا، یہی نوشتۂ دیوار ہے جو صاف نظر بھی آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
ہم عوام کی خدمت ‘اپوزیشن کورونا پھیلا رہی : فردوس عاشق
معاونِ خصوصی برائے اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''ہم عوام کی خدمت اور اپوزیشن کورونا پھیلا رہی ہے‘‘ اگرچہ عوام کا ایک خاصا حصہ حکومتی خدمت پر کورونا کو ترجیح دے رہا ہے جبکہ حکومت کے بقول جوں جوں معیشت کے اشاریے مثبت آنا شروع ہوئے ہیں، مہنگائی میں اس کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور بھوک سے مرنے والوں میں بھی۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان بذریعہ ٹویٹ نشر کر رہی تھیں۔
غلط طریقے سے لائی گئی حکومت کے
ساتھ کیسے بیٹھا جا سکتا ہے: عظمیٰ بخاری
پیپلز پارٹی کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''غلط طریقے سے لائی گئی حکومت کے ساتھ کیسے بیٹھا جا سکتا ہے‘‘ جبکہ غلط طریقے سے لائی گئی اس حکومت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اڑھائی سال تک ہی بیٹھا جا سکتا تھا جو ہم بیٹھ چکے ہیں اور اس طرح یہ میعاد پوری ہو چکی ہے، اگرچہ جتنی غیر قانونی حکومت یہ ہے‘ پچھلی تمام بھی اس سے کم نہ تھیں مگر اس وقت ہماری باریاں مقرر تھیں اور ہمارے لیے حکومت اور اپوزیشن میں ہونا ایک برابر تھا اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے میں مزہ بھی آتا تھا لیکن اس دفعہ ساری عمدہ روایات کو پامال کرتے ہوئے صرف ہمیں نقصان پہنچایا گیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہی تھیں۔
مریم کو فیملی کا خیال نہیں تو عوام کا کیا ہو گا: مراد راس
وزیر تعلیم پنجاب ڈاکٹر مراد راس نے کہا ہے کہ ''مریم کو فیملی کا خیال نہیں تو عوام کا کیا ہو گا‘‘ کیونکہ جب وہ فیملی کو ساتھ لے کر بند گلی میں داخل ہو گئی ہیں تو عوام تو کسی شمار و قطار ہی میں نہیں آتے، انہیں چاہیے تھا کہ وہ عوام کا کم از کم اتنا تو خیال رکھ لیتیں جتنا ہم نے رکھا ہوا ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے اور مہنگائی نے ان کی کمر توڑ دی ہے جسے جڑوانے کے لیے ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں اور وہ اس ٹوٹی اور جھکی ہوئی کمر کی وجہ سے باقاعدہ کبڑے ہو چکے ہیں جبکہ ہمارے پاس تو ان کا کُب نکالنے کے لیے لات مارنے کی بھی فرصت نہیں ہے؛ چنانچہ نواز شریف فیملی اور عوام اپنی اپنی تقدیر کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
استعفیٰ صرف میڈیا پر چل رہا ہے: فواد چودھری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''استعفیٰ صرف میڈیا پر چل رہا ہے‘‘ اور امید ہے کہ سالہا سال تک چلتا رہے گا کیونکہ خود میڈیا کو بھی یہ دل و جان سے پسند ہے، اس لیے ایک طرح سے دونوں لازم و ملزوم ہو چکے ہیں جبکہ عوام بھی اسے شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں کیونکہ تفریحی پروگرام بوجوہ بہت کم ہو گئے ہیں، ویسے بھی یہ استعفے سپیکر کے بجائے صرف قائدین جماعت تک ہی پہنچے ہیں اور انہی کے پاس رہیں گے کیونکہ ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے اور ان کی آخری منزل بھی یہی ہے ورنہ یہ سیدھے سپیکر کو بھجوائے جاتے، اور لگ یہی رہا ہے کہ سپیکر صاحب کو شاید ان کی شکل بھی دیکھنا نصیب نہ ہو گی۔ آپ اگلے روز سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام حکومت کو مہلت نہیں دینا چاہتے: ڈاکٹر نثار چیمہ
نون لیگ کے رہنما ڈاکٹر نثار چیمہ نے کہا ہے کہ ''عوام حکومت کو مہلت نہیں دینا چاہتے‘‘ اور یہ بات مجھے دو چار عوام نے خود بتائی ہے کیونکہ عوام کے ساتھ میری گپ شپ رہتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے اس کی کوئی وجہ تو نہیں بتائی؛ تاہم محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن کو بھی کوئی مہلت نہیں دینا چاہتے کیونکہ یہ سارے کے سارے مختلف سمتوں میں چل رہے ہیں، اس کے علاوہ نواز شریف کا بیانیہ ان کے گلے پڑا ہوا ہے جس پر ساری نون لیگ بھی متفق نہیں جبکہ عوام کو اس بات کا بھی اچھی طرح سے علم ہے، اس لیے ایسے لگتا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک طرح سے دونوں ہی ویہلے ہیں اور عوام کی خبر لینے کے بجائے فضول میں ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی تازہ غزل:
بکھرنے کے لیے شیرازے کیا لگاتے ہیں
خلا ہے اور یہ آوازے کیا لگاتے ہیں
جو میں ہوں میرے سوا کوئی جانتا ہی نہیں
نہ جانے لوگ یہ اندازے کیا لگاتے ہیں
اک اور آنکھ اُبھر آئے دیکھنے کے لیے
اک اور غازے پہ بھی غازے کیا لگاتے ہیں
چلی ہوئی ہے زمان و مکاں کے باہر سے
ہوا کے سامنے دروازے کیا لگاتے ہیں
گزر کے آئے ہوئے ہیں ہزاروں منزلوں سے
ہمارے سامنے خمیازے کیا لگاتے ہیں
وجود جھیل‘ عدم جھیل بیٹھے ہیں ہم جو
وہ زخم اور ہمیں تازے کیا لگاتے ہیں
نویدؔ خود میں اترتے نہیں ہیں لوگ یہاں
یہ کیا مقام ہے اندازے کیا لگاتے ہیں
آج کا مقطع
وحشت اگر نہیں ہے کچھ ایسی تو اے ظفرؔ
پھر کام کیا ہے آپ کا صحرا کے آس پاس