"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں متن، جنگل کا آخری قدم اور انجم قریشی

لانگ مارچ جنوری میں‘ حکومت بھاگ جائے گی: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ جنوری میں، حکومت بھاگ جائے گی‘‘ اگرچہ چند روز پہلے جو آر یا پار ہونا تھا وہ بھی نہیں ہوا ا ور اتوار کے جلسے سے بھی کچھ خاص برآمد نہیں ہو گا اس لئے جنوری کی تاریخ دے رہے ہیں جبکہ بھاگنے کے لئے حکومت تھوک کے حساب سے جاگرز اکٹھے کر رہی ہے جونہی یہ اکٹھے ہو گئے حکومت بھاگنے میں کوئی دیر نہیں لگائے گی کیونکہ حکومت ہے تو احتساب ہے اور انتقامی کارروائیاں ہیں۔ بیشک یہ ادارہ ہم نے نواز لیگ کے ساتھ مل کر خود بنایا تھا لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ ہمیں بھی معاف نہیں کرے گا۔ کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ آپ اگلے روز گلبرگ میں ایک استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم جلسے نہ کرے، قانون نہیں
توڑنے دیں گے: وزیراعلیٰ عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم جلسے نہ کرے، قانون نہیں توڑنے دیں گے‘‘ اور حکومت نے چونکہ جلسے کی اجازت نہیں دی اس لئے جلسہ بجائے خود غیر قانونی ہوگا، اس لئے قانون کی اس خلاف ورزی پر حرکت میں آئے گا جو کافی عرصے سے بے عملی کا شکار تھا اور چونکہ یہ سارا عمل ہی غیر قانونی ہوگا اس لئے پکڑ دھکڑ بھی ہو سکتی ہے، چنانچہ خاطر جمع رکھیں یعنی ع
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
جبکہ ان دنوں حکومت کو ویسے بھی جیلیں بھرنے کا بے حد شوق ہے اور اس طرح حکومت کا شوق بھی پورا ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بھارت مینارِ پاکستان میں کچھ بھی کر سکتا ہے: فردوس عاشق
وزیر اعلیٰ پنجاب کی مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''بھارت مینارِ پاکستان میں کچھ بھی کر سکتا ہے‘‘ اس لئے اگر کوئی گڑ بڑ ہو تو ہمیں اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے؛ اگرچہ ہم خود بہت ذ مہ دار واقع ہوئے ہیں اور ملک میں جوکچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ہم ہی ذمہ دار ہیں لیکن چونکہ بھارت اپنے ملک میں ہونے والی ہر واردات کو ہمارے کھاتے میں ڈال دیتا ہے اسی طرح یہ قیمتی عذر ہمیں بھی میسر ہیں اور اس لئے ہم نے مریم نواز، بلاول اور مولانا کے لئے الرٹ جاری کر دیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ ہم کو بتایا نہیں تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے اپنی معمول کی بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت کے خلاف دھرنا شریف لوگوں
کے کہنے پر ختم کیا تھا: مولانافضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کے خلاف دھرنا ہم نے شریف لوگوں کے کہنے پر ختم کیا تھا‘‘ اور چونکہ ملک میں کچھ اور بھی شریف لوگ موجود ہیں اس لئے یہ جلسے وغیرہ ان کے کہنے پر بھی ختم کر سکتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے کان پر کوئی جوں ہی نہیں رینگ رہی‘ جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ا ور انہوں نے ہمیں ہمارے حال پر ہی چھوڑ دیا ہے جو اب حال سے ہٹ کر بدحالی کی شکل اختیار کر چکا ہے اور صورت حال روز بروز ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے اور اب تو ہم حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دیتے دیتے بھی تھک چکے ہیں اور ہر آخری تاریخ آخر میں ایک مذاق ہی ثابت ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مراعات کے نام پر کبھی قومی خزانے سے
ایک پائی بھی وصول نہیں کی: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مراعات کے نام پر کبھی ایک پائی وصول نہیں کی‘‘ اور یہ وہی پائی ہے جس کی میں نے کرپشن بھی نہیں کی تھی۔ علاوہ ازیں دیگر ذرائع آمدن ہی اس قدر وافر تھے کہ مراعات کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ اور اگر وہ مجھے ملتی رہی ہیں تو مراعات دینے والوں سے پوچھا جائے اور اگر صوبے کا کوئی اعلیٰ عہدیدار ہربات کا جواب اس طرح دے سکتا ہے کہ مجھے کچھ پتا نہیں تو ایک سابق وزیراعلیٰ ایسا کیوں نہیں کر سکتا ؟جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ ہم نے پیسوں کا کبھی کوئی حساب کتاب ہی نہیں رکھا تو مراعات جیسی چیزوں کو کون یاد رکھ سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جنگل کا آخری قدم
یہ کینیڈا میں مقیم ہمارے دوست افضال نوید کا مجموعہ غزلیات ہے جسے بک ہوم لاہور نے شائع کیا ہے۔ انتساب اپنے بڑے بھائی اور عمدہ شاعر ابرار احمد کے نام ہے۔ دیباچہ نگاروں میں ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ ، حسین مجروح اور کاشف نعمانی شامل ہیں۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر کے ساتھ حسین مجروح کی تحریر کے مطابق: افضال نوید کے ہاں بیان کاانوکھا پن اس کے موضوعات کی رنگا رنگی میں یوں گندھا ہوا ہوتا ہے کہ اسے ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے دیکھنا خاصا محال ہے۔ اندرونِ سرورق اشفاق احمد ورک کی رائے کے مطابق:ہمارے اس من موجی شاعر کا ایک نقش اردو غزل کے سینے پر ثبت ہو رہا ہے جسے کھرچنے یا دھندلانے کے لئے زمانے کو صدیوں سوچنا پڑے گا۔ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کے مطابق: ان کی پُراسرار تخلیق کو میری سند کی ضرورت نہیں ہے‘ میں ان کی شاعری کے بارے میں بس اتنا کہوں گی کہ یہ خود شرحی انفرادیت کے مقام پر ہے۔
اور‘ اب آخر میں انجم قریشی کی یہ پنجابی نظم:
تینوں پیار میں کس لئی کرنی آں
تینوں پیار میں ایس لئی کرنی آں تیرا ہور کراں میں کیہ
جدوں جدوں مرزا جمیا، نال صاحباں وی سی
تینوں پیار میں ایس لئی کرنی آں جس لئی کُرلاوے کاں
گُڑ نالوں مٹھا وکھ نہیں بن تیرے میں کِنج رہواں
تینوں پیار میں ایس لئی کرنی آں جس لئی آسمان تے تارے
گھاہ نواں پُھٹدا جس کارن پھل کھڑدے نیں سارے
تینوں پیار میں ایس لئی کرنی آں کہ سپھل ہو جاوے جینا
دُکھ جرنا مینوں آ جاوے تے سُکھ نال بھر جائے سینا
تینوں پیار میں ایس لئی کرنی آں کہ توں جھلیں اپنا ابھیمان
نیویاں ہو کے عرشاں توں کریں پیار تے دیویں مان
تینوں پیار میں ایس لئی کرنی آں جس لئی آسمان تے رب
سورج دے چڑھدے چڑھدے چن جس لئی جاندا دَب
تینوں پیار میں ایس لئی کرنی آں تیرا ہور میں کیہ کراں
اِنج توں وڑیا ایں ویچ میرے جے مریں تے نال مراں
آج کا مطلع
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں