"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، ’’زخمِ سخن‘‘ اور فیصل ہاشمی کی نظم

پی ڈی ایم عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے
والوں کے خلاف ہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے والوں کے خلاف ہے‘‘ اور ایسے الزامات کی زد میں آنے والے افراد کو ساتھ ملا کر حکومت کے خلاف تحریک اس لیے چلائی جا رہی ہے تا کہ وہ ناکام ہو کر اچھی طرح خوار ہو جائیں اور عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کا مزہ اچھی طرح چکھ لیں جبکہ ان کے لیے این آر آو حاصل کرنے کی کوشش بھی اس لیے کی جا رہی ہے تا کہ یہ این آر او زدہ ہو کر مزید بدنام ہو سکیں اور انہیں ایسی عبرت حاصل ہو کہ پھر کہیں ایسی حرکت کے ارتکاب کا سوچ تک نہ سکیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
کرپشن کے مگر مچھ استعفے بھی نگل
جائیں گے: فردوس عاشق اعوان
معاونِ خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''کرپشن کے مگر مچھ استعفے بھی نگل جائیں گے‘‘ کیونکہ یہ ہمارے لیے مفید نہیں ہو گا جبکہ استعفے منظور ہونے سے ہمارے لیے میدان صاف اور کھلا ہو جائے گا اور ہم ملک کو اپنی مرضی سے چلا سکیں گے، اگرچہ اب بھی ملک کو اپنی مرضی ہی سے چلا رہے ہیں؛ تاہم اس صورت میں زیادہ مرضی سے چلا سکیں گے، اس لیے اپوزیشن سے درخواست ہے کہ اپنے مگر مچھ کو کبھی بھوکا نہ رہنے دے اور کچھ نہ کچھ اسے کھلاتی رہے تا کہ وہ استعفے ہڑپ نہ کر سکے، اور اگر اور کچھ نہیں تو استعفے نہ دینے والے ارکان کو اس کے آگے ڈال دے تا کہ استعفے بچے رہیں۔ آپ اگلے روز جناح ہسپتال کے دورہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
پی ڈی ایم کا مقصد حکومت کو گرانا ہے: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کا مقصد حکومت کو گرانا ہے‘‘ اور یہ بالکل غلط ہے کہ یہ کام ہم جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کر رہے ہیں یا عوام کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں جیسا کہ ہمارے چیئر مین اور بعض دیگر حضرات وعدے کر رہے ہیں کیونکہ اگر ہماری تحریک اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو جمہوریت کی بساط لپیٹی بھی جا سکتی ہے جس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ احتساب کا بھی خاتمہ بالخیر ہو جائے گا جس نے ہمیں ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں اور ہر طرف دما دم مست قلندر ہو جائے گا جس سے قلندروں کے بھی مزے ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
نئے پاکستان میں کرپٹ سیاستدانوں
کے لیے کوئی گنجائش نہیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''نئے پاکستان میں کرپٹ سیاستدانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں‘‘ لیکن چونکہ نیا پاکستان ابھی بنا نہیں ہے اور ہم پورا زور لگا کر اسے بنا رہے ہیں اس لیے جب تک نیا پاکستان بن نہیں جاتا، اس وقت تک کرپٹ سیاستدانوں کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے اور کچھ حکومتی افراد اس رعایت کا فائدہ اٹھا بھی رہے ہیں لیکن اپنی نا اہلی کی وجہ سے وہ زیادہ مثبت نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے؛ البتہ انہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انسان عمر بھر سیکھتا رہتا ہے۔ آپ اگلے روز خانیوال ایئر پورٹ پر ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
جنہوں نے ملک کی خدمت کی وہ 
تاج جیلوں میں ہیں: رانا تنویر
نواز لیگ کے سینئر مرکزی رہنما اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئر مین رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''جنہوں نے ملک کی خدمت کی وہ تاج جیلوں میں ہیں‘‘ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے جو 'خدمت‘ کی تھی وہ بھی ان سے واپس طلب کی جا رہی ہے جبکہ یہ سراسر زیادتی ہے اور جس کا مقصد شاید یہ ہے کہ آئندہ کوئی ملک کی خدمت نہ کرے اور بھوکا مر جائے حالانکہ پیسہ جمع کرنا کہیں سے بھی غیر قانونی نہیں بلکہ یہ دوراندیشی کی ذیل میں آتا ہے اور اس اقدام کا مطلب بنی نوع انسان کو اس دور اندیشی سے روکنا بھی ہے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
زخمِ سخن
یہ علی عرفان عابدی کا مجموعۂ کلام ہے جسے عنبر بک فائونڈیشن کراچی نے شائع کیا ہے۔ انتساب اپنے سات پوتوں اور نواسوں کے نام ہے جو سب اہلِ زبان کی اولادیں ہیں۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور تعارف درج ہے۔ کتاب پر رائے دینے والوں میں افتخار عارف اور ڈاکٹر جمال نقوی شامل ہیں۔ پسِ سرورق اپنے علاوہ اپنے بھائی کی اولادوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں شاعر کا یہ قطعہ درج ہے:
ہر عضو زخم کا گھروندا ہے
زخم کچھ پالنا بھی پڑتے ہیں
زخم ہے تمغۂ جہاں عرفانؔ
آپ دل میں چھپائے پھرتے ہیں
اس میں لفظ ''عضو‘‘ کو غلط وزن میں باندھا گیا ہے۔
اور‘ اب آخر میں فیصل ہاشمی کی یہ نظم:
کون منَش تھا!
ایک مخرِّب شب تھی جس میں
ایک منَش نے،
مسخ شدہ چہرے کے ساتھ
دروازے پر دستک دی تھی!
کھولو۔۔۔۔۔
یہ دروازہ کھولو!
دیکھو، میں آیا ہوں۔۔۔۔۔ تمہارا وارث
اَزلوں سے اِس بنجر، مریل
دھرتی کا اکلوتا وارث
اُٹھ کر دیکھو،
لَوٹ کے جنموں بعد آیا ہوں
تھکا ہوا ہوں
سر رکھنے دو اپنی گود میں، سو جانے دو
نیند کے سبزہ زار میں، پھر سے
کھو جانے دو!
میرا چہرہ مسخ ہوا ہے
میری رُوح وہی ہے اب تک
جس سے تم سرشار ہوئے تھے
میرے دعوے دار ہوئے تھے! 
لیکن اس کی ساری صدائیں
خاموشی کا رزق بنی تھیں
جب وہ چلا گیا تو میں نے
بھید بھنور سے باہر آ کر
بھاری کُہنہ دروازے کی اوٹ سے
جاتے دیکھا اُس کو
کون منَش تھا۔۔۔۔۔ کون منَش تھا؟
دیر تلک پھر سوچا اُس کو۔۔۔۔۔!!
آج کا مطلع
محبت ہے مگر اس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اس خوشبوئے دل کے منتشر ہونے سے ڈرتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں