حکومت کو کام آتا ہے نہ زخموں پر مرہم رکھنا: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''حکومت کو کام آتا ہے نہ زخموں پر مرہم رکھنا‘‘ جبکہ کام نہ آنے کی حقیقت تو خود وزیراعظم بھی تسلیم کر چکے ہیں اور زخموں پر مرہم رکھنا تو انہیں بالکل بھی نہیں آتا، ورنہ ہم جو اب تک ناکامی کے زخموں سے چور ہو چکے ہیں‘ جلسے ہمارے فیل، ریلیاں ہماری ناکام، استعفے ہم نہیں دے سکے اور اُوپر سے ضمنی اور سینیٹ الیکشن بھی لڑنے پر مجبور ہیں جبکہ لانگ مارچ کے زخم ابھی لگنا باقی ہیں‘ اس بے رحم حکومت نے ہمارے زخموں پر ایک پھاہا بھی رکھنا پسند نہیں کیا۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
احتساب کسی کے کنٹرول میں ہونا ہی نہیں چاہیے: ثانیہ کامران
پی ٹی آئی کی رہنما اور رکنِ پنجاب اسمبلی ثانیہ کامران نے کہا ہے کہ ''احتساب کو کسی کے کنٹرول میں ہونا ہی نہیں چاہیے‘‘ لہٰذا اب حکومت کو چاہیے کہ اس کی خدمات سے جس قدر استفادہ کر چکی ہے، اسے کافی سمجھے اور اسے آزاد کر دے کیونکہ اب تک تو جس کے خلاف انکوائری شروع کرنا ہوتی ہے یا ریفرنس دائر کرنا ہوتا ہے تو وفاقی وزیر شیخ رشید ہفتوں پہلے ہی بتا دیا کرتے تھے، حتیٰ کہ یہ بھی کہ کون اپوزیشن رہنما کب گرفتار ہونے والا ہے اور اب چونکہ ان کا محکمہ تبدیل ہو چکا ہے، اس لیے اب انہیں اپنے محکمے کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے کہ اسے کس کس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھیں۔
پیپلز پارٹی حقوق کی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹے گی: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی حقوق کی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹے گی‘‘ کیونکہ برسر اقتدار پارٹی کو کچھ بھی کرنے کا اختیار ہونا چاہیے لیکن یہاں احتسابی اداروں نے یہ حق مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور ذاتی اثاثوں کے بھی پیچھے پڑے رہتے ہیں حالانکہ کسی کے ذاتی معاملات میں دخل دینا دنیا بھر میں کہیں بھی جائز نہیں ہے اور جس سے حکومت سمیت ہر شخص کی پرائیویٹ زندگی ختم ہو کر رہ گئی ہے، اگرچہ موجودہ افسران کو ہم نے ہی شریف برادران کے ساتھ مل کر تعینات کیا تھالیکن یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ حال کر دیا جائے گا۔ آپ اگلے روز پارٹی قائد کے یوم پیدائش پر اپنا پیغام جاری کر رہے تھے۔
لانگ مارچ میں فضل الرحمن کو حلوہ بھی کھلائیں گے: پرویز خٹک
وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ میں فضل الرحمن کو حلوہ بھی کھلائیں گے‘‘ اور یہ تردد اس لیے کیا جائے گا کہ استعفوں اور الیکشن بائیکاٹ کی طرح کہیں وہ لانگ مارچ سے بھی نہ یوٹرن نہ لے لیں۔ کیونکہ اپوزیشن کی کاوشوں سے خوب رونق لگی ہوئی ہے اور اگر انہوں نے لانگ مارچ بھی ختم یا ایک لمبی مدت کے لیے مؤخر کر دیا تو یہ گہما گہمی ختم ہو کر رہ جائے گی جبکہ کورونا کی وجہ سے انٹرٹینمنٹ کا سارا سلسلہ ویسے ہی ختم ہو چکا ہے اور ہر طرف ایک اداسی اور مایوسی کی فضا چھائی رہتی ہے؛ چنانچہ یہ پیشکش انتہائی خلوصِ نیت سے کی جا رہی ہے۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کی کاوشوں سے حکمران
اپنے انجام کو پہنچیں گے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کی کاوشوں سے حکمران اپنے انجام کو پہنچیں گے‘‘ اور جتنی خاک اپوزیشن اب تک چھان چکی ہے، حکومت میں اگر وضع داری نام کی کوئی چیز ہوتی تو اب تک گھر جا چکی ہوتی کیونکہ ہم حکومت میں ہوتے اور ہمارے خلاف اتنی جدوجہد کی جاتی تو ہم خود ہی پسپا ہو چکے ہوتے لیکن یہ ایک عجیب حکومت ہے کہ ٹس سے مس ہی نہیں ہو رہی اور اپوزیشن کی صفوں کا شیرازہ ہے کہ روز بروز بکھرتا چلا جا رہا ہے اور ہم وہ کچھ بھی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جسے نہ کرنے کی ہم یقین دہانی کرایا کرتے تھے۔ آپ اگلے روز جامعہ گلگشت ملتان میں کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
قائداعظم کی نجی زندگی
یہ کتاب ڈاکٹر سعد خان نے لکھی ہے جسے بُک ہوم لاہور نے شائع کیا ہے جس میں بابائے قوم کے مسلک، شادی اور اولاد کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ انتساب اپنے بیٹے صائم کے نام ہے جبکہ ٹائٹل قائداعظم کی تصاویر سے مزین ہے‘ ایک تصویر میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اندرونِ سرورق ایک جگہ کتاب کے بارے میں یاسر پیر زادہ کی رائے درج ہے تو دوسری طرف برخوردار صائم کی تصویر جلوہ افروز ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی دیگر تصانیف کی تفصیل درج ہے۔ دیباچہ مصنف کا قلمی ہے جس کے بعد تعارفی تحریر ہے۔ کتاب کے اندر بھی قائداعظم کے ساتھ ان کے لواحقین کی نایاب تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی عقائدِ قائد اور عیالِ قائد۔ غرض بابائے قوم کی نجی زندگی کو نہایت دلچسپ انداز میں موضوع بنایا گیا ہے۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
میں کر رہا ہوں اس لیے تھوڑا دراز گشت
کرتی ہے میرے ساتھ کوئی چشمِ ناز گشت
میں نے کیا ہے عشق کا اظہار برملا
اب ہر طرف ہے میری محبت کی باز گشت
ہم بھی درونِ وصل ہیں متلاشیٔ ہوس
کیجے ہمارے ساتھ بندہ نواز گشت
چلنے کا ہر کسی کو سلیقہ نہیں میاں
کرتے ہیں مہ جبین ہی بس دل گداز گشت
ہم دونوں ایک جیسے ہیں آوارگانِ شوق
کرتے ہیں میرے ساتھ ہی احمد فراز گشت
ہر شخص میرے دل سے گزرتا ہے صاحبان
ہوتا ہے اس سڑک پہ بلا امتیاز گشت
رکھا ہوا ہے دونوں کو اک دوسرے کے ساتھ
سو‘ کر رہا ہوں پڑھ کے میں چھت پر نماز گشت
(اعجاز توکل)
آٹھ پہر کا روزہ رکھا حُور سے رشتے داری کی
اک دوجے کو دور سے دیکھا اور پھر گریہ و زاری کی
اول اول ہم دونوں میں جھگڑا وگڑا ہوتا تھا
عشق ہوا تو ہاتھ ملایا، اک خاموشی طاری کی
پہلے شرم اتاری اس نے دروازے سے باہر، اور
بعد میں ہم دونوں نے کیسی کھلم کھلا یاری کی
جوشؔ ملیح آبادی کی جب یادوں کی بارات پڑھی
میرؔ کی غزلیں رونے لگ گئیں غالبؔ نے سرداری کی
ہم جس شخص کو اپنا جان کے سو جاتے تھے اس نے ہی
وقت پڑا تو ایک منافق سی ہم سے غداری کی
(ندیم ملک)
آج کا مطلع
ملوں اُس سے تو ملنے کی نشانی مانگ لیتا ہوں
تکلف برطرف‘ پیاسا ہوں‘ پانی مانگ لیتا ہوں