وزیراعظم نے ہمیشہ غریبوں کیلئے اقدامات کیے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے ہمیشہ غریبوں کے لیے اقدامات کیے‘‘ اگرچہ ان کا فائدہ زیادہ تر امیر اور سرمایہ دار طبقے کو پہنچا جس میں وزیراعظم کا نہیں بلکہ ان اقدامات کا قصور ہے، اس لیے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے ان اقدامات سے باز پرس ہونی چاہیے، تاہم یہ اقدامات زیادہ تر اس وقت کے ہیں جب ہم کام سیکھ رہے تھے اور اب چونکہ کام کی شد بُد کافی حد تک حاصل ہو چکی ہے اس لیے امید ہے کہ اب وہ جو اقدامات کیے جائیں گے ان کا فائدہ غریبوں کو ضرور پہنچے گااور دنیا ویسے بھی امید پر قائم ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم کوئٹہ نہ گئے تو ہم انہیں
کرسی پر نہیں بیٹھنے دیں گے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کوئٹہ نہ گئے تو ہم انہیں کرسی پر نہیں بیٹھنے دیں گے‘‘ اور جونہی وہ کہیں جانے کے لیے کرسی سے اٹھیں گے، ہم کرسی پر خود بیٹھ جائیں گے اور وہ دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جائیں گے ، ہمارا آخری آپشن بھی یہی ہے کیونکہ اتنی خاک چھاننے کے باوجود اور تو کسی بھی طریقے سے ہم انہیں کرسی سے محروم نہیں کر سکے اور نہ ہی آئندہ اس کی کوئی امید نظر آتی ہے، اس لیے ہم موقع کی تلاش میں رہیں گے اور وزیراعظم کو کرسی سے ہٹ کر بنچ وغیرہ پر بیٹھنے پر مجبور کر دیں گے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ڈھائی برس میں عوامی فلاح کے لیے بے شمار
اقدامات کیے ہیں: وزیراعلیٰ عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ڈھائی برس میں عوامی فلاح کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں‘‘ اور اگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہے تو اس لیے کہ وہ اپوزیشن کی نظرِ بد سے بچنے کے لیے خفیہ طور پر کیے گئے تھے کیونکہ ہم سابق حکمرانوں کی طرح شوبازی میں یقین نہیں رکھتے اور ان کا فائدہ عوام کو بھی پہنچا ہے؛ اگروہ ایسا محسوس نہیں کر رہے تو یہ ان کا اپنا قصور ہے اور انہیں اپنی حسیات کا کوئی علاج کرانا چاہیے کیونکہ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ اقدامات بھی کریں اور انہیں محسوس بھی کروائیں کہ ایک وقت میں دو کام نہیں ہو سکتے۔ آپ اگلے روز لیگی ایم پی اے منیرہ یامین کے انتقال پر تعزیت اور فتح ون تجربہ پر مبارکباد دے رہے تھے۔
عمران خان کو تو چاہیے تھا کہ وہ پیدل جاتے اور
لواحقین سے اظہار ِتعزیت کرتے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو تو چاہیے تھا کہ وہ پیدل جاتے اور لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے‘‘ اگرچہ پیدل کوئٹہ پہنچنے میں انہیں ایک دو ماہ لگ سکتے تھے لیکن لواحقین ان کے آنے کی خبر سن کر ہی مطمئن ہو جاتے اور اسی بہانے وزیراعظم کو اس طرح سے پورا ملک دیکھنے کا بھی موقع مل جاتا ، نیز ان کی ورزش بھی ہو جاتی کیونکہ جب سے انہوں نے کرکٹ چھوڑی ہے ورزش کی روٹین باقی نہیں رہی اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کا سارا نظام بھی چاق و چوبند نظر نہیں آتا بلکہ وہ اپنے ساتھ اس معتمد کو بھی لے جاتے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے تک کراچی بھی دیکھا ہوا نہیں تھا، اسی کو ایک پنتھ اور دو کاج بھی کہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تعزیتی ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام کے ٹھکرائے عناصر گھر کے
رہے نہ گھاٹ کے: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''عوام کے ٹھکرائے عناصر گھر کے رہے نہ گھاٹ کے‘‘ جس پر ہمیں بے حد تشویش ہے کیونکہ یہ وقت جلد یا بدیر ہم پر بھی آ سکتا ہے کیونکہ اقتدار کا سنگھاسن کسی کا سگا نہیں ہوتا اور ٹھکرانے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی بے چارہ گھر کا رہے نہ گھاٹ کا کیونکہ دونوں میں سے کم از کم ایک چیز تو برقرار رہنی چاہیے کیونکہ گھر اگر نہ بھی ہو تو آدمی گھاٹ پر گزارہ کر سکتا ہے اور گھاٹ اگر ایک سے زیادہ ہوں تو اور بھی اچھی بات ہے کہ آدمی گھاٹ گھاٹ کا پانی پی سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
دعوتِ شیراز
طنز و مزاح کا یہ مجموعہ ہمارے دوست حسین احمد شیرازی کی تصنیف ہے جسے سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب یارِ جانی عرفان محمود المعروف چھوٹے بھائی کے نام ہے۔ تحسینی رائے دینے والوں میں عطا الحق قاسمی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک شامل ہیں۔ سرورق جاوید اقبال کے کاٹونوں سے سجایا گیا ہے۔ یہ موصوف کا دوسرا مجموعہ ہے جبکہ ''بابونگر‘‘ کے عنوان سے پہلے مجموعے کے دو ایڈیشن شائع ہو کر اہلِ علم و ادب سے داد وصول کر چکے ہیں۔ پسِ سرورق مصنف کا مختصر تعارف اور عطا الحق قاسمی کی رائے درج ہے۔ کتاب کے اندر بھی جا بجا کارٹون ہیں۔ 'عرضِ مصنف‘ کے عنوان سے پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے۔ مزاح آج کل بہت کم لکھا جا رہا ہے، اس لیے اس بشاشت آمیز کتاب کی اشاعت کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
جس سے ہماری جان نہ پہچان ہے یہاں
یہ دل اسی کے ہاتھوں پریشان ہے یہاں
پھر بھی دکانِ دل کو بڑھاتے نہیں کہیں
ہم جس کو نفع کہتے ہیں نقصان ہے یہاں
اپنے ہی آب و رنگ میں ہے مست شام و صبح
اپنے پڑوس میں جو گلستاں ہے یہاں
وہ تو نہیں کسی کی سمجھ میں ہی آ رہا
جو اس کو جانتا ہے وہ انجان ہے یہاں
آبادیوں کو اپنی نظر سے نہ دیکھیے
سنسان بھی ہوئی ہے جو گنجان ہے یہاں
یہ ہے طلسم خانہ کچھ اپنی ہی طرح کا
جو عقلمند ہے وہی نادان ہے یہاں
اس حسن کا یقیں ہی نہیں آ رہا ابھی
ہر کوئی اس کو دیکھ کے حیران ہے یہاں
مشکل ہے اس کے عشق میں جینا ہی اس قدر
مرنا تو سب کے واسطے آسان ہے یہاں
ویراں ہیں دل کے ساتھ مضافات بھی، ظفرؔ
پہلو میں اپنے ایک بیابان ہے یہاں
آج کا مطلع
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا