"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ابرار احمد

اڑھائی سال میں ایک بھی سکینڈل سامنے نہیں آیا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''شفاف حکومت، اڑھائی سال میں ایک بھی سکینڈل سامنے نہیں آیا‘‘ اور سارے کے سارے سکینڈل بالآخر اپنی موت آپ ہی مر گئے ‘ صرف ایک لائسنس دینے کے معاملے کو سکینڈل کر رنگ دیا گیا تھا لیکن اس کا بھی مناسب بندوبست کر لیا گیا اور متعلقہ افراد کو بھی ہدایت کر دی گئی کہ آئندہ ایسی غیر ذمہ داریوں سے باز رہیں کیونکہ اس قسم حرکتوں سے حکومت کی بدنامی ہوا کرتی ہے اس لیے سمجھا دیا گیا ہے کہ کم از کم آدمی کو قاعدے قانون کا تو خیال تو رکھنا چاہیے ورنہ لوگ باتیں بناتے ہیں۔ آپ اگلے روز نشتر کالونی میں آٹھ سالہ بچے کے قتل کا نوٹس لے رہے تھے۔
نواز شریف سے ملاقات مشکل لگ رہی ہے: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''لندن میں نواز شریف سے ملاقات مشکل لگ رہی ہے‘‘ کیونکہ وہ کسی سے ملاقات نہیں کر رہے اور پاکستان سے آنے والے ہر شخص کو حکومتی کارندہ سمجھتے ہیں اور فلیٹس سے باہر کسی ایسی جگہ چھپے ہوئے ہیں جس کا علم صرف برخوردار حسین نواز کو ہے جنہوں نے بتایا ہے کہ چند روز میں وہ باہرکسی اور محفوظ ملک میں شفٹ ہو جائیں گے جہاں ان سے ملاقات ممکن ہو سکے گی کیونکہ تین بار وزیراعظم رہنے والے کو اپنی صحت کا بہت خیال ہے جس کو انہوں نے اب تک کافی سنبھال سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار ِخیال کر رہے تھے۔
کوئٹہ جانے میں تاخیر کی وجہ نہیں بتا سکتے: وزیر داخلہ
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کے کوئٹہ جانے میں تاخیر کی وجہ نہیں بتا سکتے‘‘ تاہم جہاں تک میرا خیال ہے اس کی وجہ کا تعلق بعض خاص امور ہی سے ہو گا کیونکہ کوئی معمولی بات ہوتی تو ہمارے وزیر اعظم اس کی پروا کئے بغیر کوئٹہ روانہ ہو جاتے۔ اس کے علاوہ غالباً ان کا خیال یہ بھی ہو گا کہ اگر وہ فوری روانہ ہو گئے تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اپوزیشن کے بار بار کے مطالبات پر گئے ہیں جبکہ اپوزیشن کی کوئی بھی بات ماننا حکومت کی شان کے خلاف ہے۔ایسا ہوتا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر ایسا سمجھا ضرور جارہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت موت کے کنوئیں میں موٹرسائیکل 
کی طرح چل رہی ہے: کیپٹن (ر) صفدر
سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے کہا ہے کہ ''حکومت موت کے کنوئیں میں موٹرسائیکل کی طرح چل رہی ہے‘‘ اور جس سے پوری قوم لطف اندوز ہو رہی ہے جو مایوسی کے ان دنوں میں ہوا کے ایک خوشگوارجھونکے سے کم نہیں ہے اور جس سے حکومت کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ؛چنانچہ میں اپوزیشن سے بھی گزارش کروں گا کہ یہ میدان بھی حکومت کے لیے خالی نہ چھوڑے اور موت کے کنوئیں بھی قائم کرے جن میں آگ کے کڑے میں سے نکلنے کے علاوہ بھی کئی حیرت انگیز مظاہرے کر کے حکومت کے دانت کھٹے کیے جا سکتے ہوں یہ حضرات جب کنوئیں کی دیواروں پر موٹرسائیکل چلائیں گے تو شائقین کی تالیاں تھمنے کا نام نہیں لیں گی، آپ اگلے روزمیڈیا سے بات کر رہے تھے۔
بلاول بھٹو کو سلیکٹڈ چیئر مین بننے پر مبارک باد: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''بلاول بھٹو کو سلیکٹڈ چیئر مین بننے پر مبارک باد‘‘ کہ اب وہ بھی ہمارے جیسے ہو گئے ہیں اور اب ہمیں طعنہ دینے کے قابل نہیں رہے تاہم ہماری فضیلت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ہم کوئی معمولی آدمیوں کے سلیکٹڈ نہیں ہیں بلکہ اس حکومت کے سلیکٹڈ ہیں جس کے سلیکٹڈ ہونے کی ہر کوئی تمنا کرتا ہے۔اگرچہ چند لوگوں کا سلیکٹڈ ہونے پر بلاول کو اتنا خوش ہونے کے بجائے عوام کی اکثریت کا سلیکٹڈ ہونے کی کوشش کرنی چاہیے مگر اس کا ابھی کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ اگلی باری پھر ہماری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ٹویٹ پیغام ارسال کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
بازگشت
بارش سونے کا نام نہیں لیتی
روئے جاتی ہے
ایک شرابور دیوار سے لپٹ کر
جس سے ایک خوشبو اور نیند رخصت ہو گئی
ایک پہاڑی راستے پر برستی ہے
جس سے ہم کب کے گزر بھی چکے
ان سمتوں پر
جہاں تمہارے کھو جانے کی نشانیاں ہیں
گیلی مٹی پر
قدموں کے گھائو دیکھ کر
آنسوئوں کی طرح ٹپک رہی ہے
ایک خالی میز پر جہاں رہ جانے والی
چائے کی پیالیوں میں
بجھی سگرٹوں کے ٹکڑے پڑے ہیں
ٹھٹھرتا، کانپتا ہوا کھڑا ہوں
گزشتہ کی دیوار سے لگ کر
جہاں سے ایک کھڑکی
صاف دکھائی دیتی ہے
سفید، دودھیا پردوں کے عقب میں
پیچھے ہٹتا ہوا ایک سایہ۔۔۔۔
دن اور رات
جو تمہارے دالان کی ہوا میں
کہیں ساکت ہو گئے
وہ پل۔۔۔۔ جو کسی کی میراث نہیں
اب میری بھی نہیں
سب جانتے ہیں
بارش ابد کی طرف بڑھتی ہے
مگر یہ بارش۔۔۔۔۔
کوئی نہیں جانتا
موسیقی ہے یا سکوت
سیرابی ہے کہ پیاس
وصال ہے یا جدائی
دسمبر کی دور افتادہ ٹھٹھرتی ہوئی
اس رات میں
کون اس بارش کو سنتا ہے
مگر تم اور میں۔۔۔۔۔
جو چھانٹوں کی طرح بدن پر برستی ہے
اور اس سے پرے کہیں
گزری ہوئی
ایک بارش کی بازگشت بن کر۔۔۔۔۔
آج کا مقطع
ظفرؔ ، ضعفِ دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھول جاتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں