کسی کو کچھ پتا نہیں حکومتی معاملات کون چلا رہا ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کسی کو کچھ پتا نہیں حکومتی معاملات کون چلا رہا ہے‘‘ جو کہ میں تو ہرگز نہیں چلا رہا اور میں اس پر کافی غور و خوض کے بعد یہ بات کہہ رہا ہوں کیونکہ آدمی کو سب سے پہلے اپنی خبر لینی چاہیے۔ اس لیے میں اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار دیتا ہوں کہ میں اس کا ذمہ دار ہرگز نہیں ہوں؛ تاہم میرا اندازہ یہ ہے کہ حکومت کو اپوزیشن‘ خاص طور پر پی ڈی ایم چلا رہی ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے حکومتی حلقوں میں کچھ ہلچل نظر آتی ہے اور مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ ہم اگر پی ڈی ایم میں شامل ہوتے تو کچھ حکومت کا مزہ بھی چکھ رہے ہوتے۔ آپ اگلے روز تیمرگرہ میں عوامی وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑ چکی، یہ استعفے نہیں دیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑ چکی، یہ استعفے نہیں دیں گے‘‘ البتہ ضمنی الیکشن میں اکٹھے ہو کر ہمارے لیے بدمزگی پیدا کر سکتے ہیں اور اسی شرارت کے تحت نواز لیگ نے اعلان کیا ہے کہ جہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار ہو گا‘ وہاں وہ اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی اور جنگل میں اگر سارے چھوٹے جانور مل کر شیر کو گرا لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے بلکہ خود ہمیں اس سے بہت کچھ سمجھ میں آ جائے گا اور ہم پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑنے پر تالیاں بجاتے رہ جائیں گے حالانکہ تالیاں بجا کر بچے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارے کام بھی معصومیت میں بچوں جیسے ہیں، البتہ بظاہر ہم پختہ کار نظر آتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں سیٹھ عابد کے انتقال پر اظہارِ افسوس کر رہے تھے۔
وزیراعظم کوئٹہ جا کر بھی این آر او کا
راگ الاپتے رہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کوئٹہ جا کر بھی این آر او کا راگ الاپتے رہے‘‘ حالانکہ ہمیں کافی عرصہ پہلے سے یہ یقین ہو چکا تھا کہ وہ این آر او نہیں دیں گے اور وہ ہمارے زخموں پر صرف نمک چھڑک رہے تھے جبکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ لواحقین کے ساتھ ہمارے زخموں پر بھی مرہم رکھتے‘ یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہے؛ اگرچہ اس بات کا پتا آج تک نہیں چل سکا کہ یہ شاہ مدار صاحب کون تھے اور مرے کو مارنے کی انہیں کیا ضرورت پیش آئی تھی‘ اس لیے ضروری ہے کہ محاوروں کی کتابوں میں ان کا مطلب بھی کھل کر بیان کیا جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
نادان اپوزیشن مفاد پرست سیاست کر رہی ہے: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''نادان اپوزیشن مفاد پرست سیاست کر رہی ہے‘‘ کیونکہ حکومت کو گرانے کی کوششوں سے زیادہ مفاد پرست سیاست اور کیا ہو سکتی ہے‘ بھلے حکومت جتنے بھی متنازع حالات میں معرضِ وجود میں آئی ہو۔ یہ امر واضح رہے کہ ہماری حکومت بھی انہی حالات میں برسر اقتدار آئی ہے جن حالات میں اب تک دوسری حکومتیں آتی رہی ہیں اور ان شاء اللہ ہماری اگلی حکومت بھی ایسے ہی وجود میں آئے گی کیونکہ آئی ہمیشہ آ کر ہی رہتی ہے اس کے آگے جتنے بھی بند باندھنے کی کوشش کی جائے‘ لکھی ہوئی کو کوئی نہیں موڑ سکتا ۔آپ اگلے روز مقامی ہوٹل میں ہمدرد فائونڈیشن کے تحت ہونے والی تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔
میں سناتا ہوں قصۂ درویش
یہ محمد نوید مرزا کا مجموعۂ نظم و غزل ہے جسے رحمانیہ کتاب مرکز لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب والدِ محترم جناب بشیر رحمانی کے نام ہے۔ پس سرورق احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر انور سدید اور اظہار شاہین کی تحسینی آرا شاعر کی تصویر کے ساتھ درج کی گئی ہیں۔ دیباچہ نگاروں میں ڈاکٹر سعادت سعید، شیخ فرید اور اللہ دتہ چودھری شامل ہیں جبکہ پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے بقول نوید مرزا کو اجتماعی اور انفرادی صورتحال کی ہو بہو عکاسی کا فن آتا ہے اس مجموعے میں سے چند شعر دیکھیے:
سر پہ ہو آسمان تھوڑا سا
کاش ہو سائبان تھوڑا سا
زلزلہ تو ابھی نہیں آیا
ہل گیا ہے مکان تھوڑا سا
جانے کیوں روز ہی سرکتا ہے
یہ مرا خاکدان تھوڑا سا
اور، اب آخر میں افضال نویدؔ کی تازہ غزل:
نوالہ ہوکے سیاست کا آہ مارے گئے
ہزاروں لوگ یہاں بے گناہ مارے گئے
جنونِ نسل کُشی کے شکنجے میں آ کر
جہاں بھی مارے گئے بے پناہ مارے گئے
رنگے ہوئے ہیں لہو سے دکھائی دیتے نہیں
وہ ہاتھ جن سے سفید و سیاہ مارے گئے
کہاں تھے پھول سے بچے حصارِ جنگ کے بیچ
کسے خبر کہ کہاں مہر و ماہ مارے گئے
نجانے کون سے پہیوں کے بیچ آ کر ہم
بلا جواز و بلا انتباہ مارے گئے
تضادِ داخلی لایا گیا بروئے کار
سو دونوں طرفوں پہ فائز سپاہ مارے گئے
ہوا میں زہر تھا یا تابکاری یا کچھ اور
وہ اہلِ دل تھے کہ اہلِ نگاہ‘ مارے گئے
جنہیں نہیں تھا سروکار تختِ شاہی سے
وہ اس بلاکدے میں خواہ مخواہ مارے گئے
کہاں کی جھولیاں بھرنی تھیں اہلِ زر نے جو لوگ
حصولِ زر کے لیے مثلِ کاہ مارے گئے
کیا جنہوں نے چراغِ صدا ذرا بھی بلند
رہینِ جبر ہوئے گاہ گاہ مارے گئے
وہیں کے مارنے والے بھی مرنے والے بھی
تو کس کی راہ میں ہم راہ راہ مارے گئے
کہ کچھ تو لائے گئے رزق بچوں کی خاطر
کچھ اور لوگ سرِ بارگاہ مارے گئے
یہ کھیل اور مفادات کا ہے کھیل مگر
ہم آ کے بیچ برائے رفاہ مارے گئے
ہم اپنے وقت پہ آئے نہ خاکساری کی سمت
بلند رکھنے میں اوجِ کلاہ مارے گئے
غذا ئے خاک ہوئے پاسبانِ جاہ و چشم
نویدؔ جادہ کشِ عز و جاہ مارے گئے
آج کا مقطع
اصرار تھا انہیں کہ بھلا دیجئے ظفرؔ
ہم نے بھلا دیا تو وہ اس پر بھی خوش نہیں