سابق ادوار میں کمزور طبقوں کو جان بوجھ کر کمزور رکھا گیا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''سابق ادوار میں کمزور طبقوں کو جان بوجھ کر کمزور رکھا گیا‘‘ جبکہ ہم ایسا نہیں کر رہے بلکہ انہیں مزید کمزور کر رہے ہیں اور اس ضمن میں مہنگائی ہمارا پورا پورا ہاتھ بٹا رہی ہے اور یہ ایک طرح کی غیبی امداد ہے جسے ہم نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے بلکہ اس نے بھی ہمیں مضبوطی سے تھام رکھا ہے تا کہ ہم گرنے سے بچے رہیں لیکن آخر بکرے کی ماں کب تک اس کی خیر منائے گی اور ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی اور نادانی میں ہماری مرغی ہی حرام ہو جائے گی، جو ویسے بھی کڑک بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز صوبائی وزیر بیت المال سید یاور عباس بخاری سے ملاقات کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم سیاسی موت کی طرف رواں دواں ہے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم سیاسی موت کی طرف رواں دواں ہے‘‘ جو ہمارے لیے بے حد تشویشناک معاملہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہمارے اندر بھی ایک طرح کی ہلچل شروع ہوئی تھی اور اگر یہ واقعی خاتمے سے ہم کنار ہو گئی تو خطرہ ہے کہ ہم پھر جمود کا شکار نہ ہو جائیں جس صورت میں ہمیں کسی پی ڈی ایم کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اس لیے گزارش ہے کہ طوعاً و کرہاً زندہ رہنے کی کوشش کرے تا کہ طوعاً و کرہاً ہم بھی زندہ رہ سکیں کیونکہ ہمارے لیے یہ روز افزوں مہنگائی ہی کافی ہے جس کی طرف ہم بھی تیزی سے رواں دواں ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
ہم عوام کو عذاب سے نجات دلانا چاہتے ہیں: مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہم عوام کو عذاب سے نجات دلانا چاہتے ہیں‘‘ اور پھر اسی عذاب میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں جس میں یہ 30 سال تک گرفتار رہے ہیں اور جس کی انہیں عادت بھی پڑ چکی تھی۔ہم گھر بیٹھ کر مظالم دیکھتے رہیں، ایسا نہیں ہوگا، اسی لیے ہم باہر نکلے ہیں کیونکہ گھروں میں بیٹھ کر مظالم کا نظارہ کرنے کا لطف بھی نہیں آتا اور نہ ہی مظالم پورے طور پر نظر آتے ہیں بلکہ ہم نے اپنی تحریکوں اور جلسوں سے عوام کو جن مظالم میں پھنسا رکھا ہے وہ اپنے طور پر ایک ورائٹی بھی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ٹویٹر پر ایک بیان نشر کر رہی تھیں۔
31 جنوری تک نہ گئے تو نیا لائحہ عمل بنائیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم 31 جنوری تک نہ گئے تو نیا لائحہ عمل بنائیں گے‘‘نیا لائحہ عمل بنانا اس لیے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ دھرنا بھی کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا، کیونکہ بعض جماعتوں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے جبکہ لانگ مارچ میں شرکت سے کچھ جماعتیں لیت و لعل کر رہی ہیں اور اس صورت حال میں نیا لائحہ عمل یہی ہو سکتا ہے کہ ہم چپ کر کے گھر بیٹھ جائیں۔ آپ اگلے روز لورا لائی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نیب کو بند کر کے اصل مصیبت سے
نجات دلائی جائے: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''نیب کو بند کر کے اصل مصیبت سے نجات دلائی جائے‘‘ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن وغیرہ سے ہم خود نمٹ لیں گے جبکہ یہی نیب ہے جو ہمارے زمانے میں نہ صرف چشم پوشی سے کام لیتی تھی بلکہ ہر طرح کا تعاون بھی پیش کرتی تھی ۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر ر ہے تھے۔
دس کیس بنیں، جدوجہد جاری رہے گی: سلیم مانڈوی والا
ڈپٹی چیئر مین سینیٹ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ ''دس کیس بنیں، پروا نہیں، جدوجہد جاری رہے گی‘‘ کیونکہ جو کچھ دوسروں کے ساتھ ہوگا، میرے ساتھ بھی ہو جائے گا۔ اس میں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے، آدمی کو جفاکش بھی ہونا چاہیے کیونکہ آدمی پر ٹھنڈے اور گرم زمانے آتے ر ہتے ہیں اور ان کے لیے اسے تیار بھی رہنا چاہیے جبکہ بڑے بڑے کام کرنے والوں کو بڑے بڑے نتائج بھی بھگتنا ہوتے ہیں‘ تاہم اس کے باوجود دوسروں کی طرح میرے خلاف بھی یہ انتقامی کارروائی ہے اور یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نیب یکدم انگڑائی لیتے ہوئے اٹھ کھڑی ہو گی اور شرفا کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ آپ اگلے روز سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ خوبصورت نظم
مٹی تھی کس جگہ کی
بے فیض ساعتوں میں
منہ زور موسموں میں
خود سے کلام کرتے
اُکھڑی ہوئی طنابوں، دن بھر کی سختیوں سے
اُکتا کے سو گئے تھے۔۔۔۔
بارش تھی بے نہایت
مٹی سے اُٹھ رہی تھی
خوشبو کسی وطن کی
خوشبو سے جھانکتے تھے
گلیاں، مکاں، دریچے
اور بچپنے کے آنگن
اک دھوپ کے کنارے
آسائشوں کے میدان
اڑتے ہوئے پرندے اک ٹھہرے آسماں پر
دو نیم باز آنکھیں
بیداریوں کی زد پر
تا حدِ خاک اُڑتے
بے سمت، بے ارادہ
کچھ خواب فرصتوں کے
کچھ نام چاہتوں کے
کن پانیوں میں اُترے
کن بستیوں سے گزرے
تھی صبح کس زمین پر
اور شب کہاں پہ آئی
مٹی تھی کس جگہ کی
اُڑتی پھری کہاں پر
اس خاکداں پہ کچھ بھی
دائم نہیں رہے گا
ہے پائوں میں جو چکّر
قائم نہیں رہے گا
دستک تھی کن دنوں کی
آواز کن رُتوں کی
خانہ بدوش جاگے
خیموں میں اُڑ رہی تھیں
آنکھوں میں بھر گئی تھیں
اک اور شب کی نیندیں
اور شہرِ بے اماں میں پھر صبح ہو رہی تھی
آج کا مطلع
دروازہ بھی کھولے گا پذیرائی بھی ہو گی
لازم نہیں یہ بات کہ شنوائی بھی ہو گی