عمران کے مالی معاملات میں شفافیت کا نام نہیں: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے مالی معاملات میں شفافیت کا نام نہیں‘‘ جبکہ میرے معاملات میں شفافیت شیشے کی طرح صاف اور آر پار نظر آتی تھی کہ کون سے منصوبے میں کتنے فیصد حصہ لیا گیا ہے۔ یہ 25فیصد سے لے کر بعض اوقات 80 فیصد تک بھی جا پہنچتا تھا جبکہ منصوبے شروع ہی ایسے ہوتے تھے جن میں شفافیت کا امکان زیادہ سے ز یادہ ہو جبکہ شہباز شریف تو اس قدر صابر و شاکر آدمی تھے کہ انہوں نے کبھی پائیوں اور دھیلوں کی کرپشن نہیں کی اور ہر منصوبے میں اربوں روپے کی بچت کرتے تھے جس کے وہ حقدار بھی تھے۔ آپ اگلے روز ویڈیو پرایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پنجاب میں حقیقی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے: عثمان بزدار
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں حقیقی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے‘‘ جبکہ اب تک غیر حقیقی تبدیلی ہی سے کام چلایا جا رہا تھا اور وہ ٹھیک ٹھاک چل بھی رہا تھا؛ چنانچہ اب ذرا ورائٹی کی خاطر حقیقی تبدیلی کا آغاز کیا جا رہا ہے تاکہ عوام اس کا ذائقہ بھی چکھ لیں؛ اگرچہ وہ اب پرانی غیر حقیقی تبدیلی ہی کے عادی ہوچکے تھے ا ور شاید یہ حقیقی تبدیلی انہیں راس نہ آئے اور دوبارہ اسی تبدیلی کی طرف رجوع کرنا پڑے۔ یہ تجربے اس لئے ہو رہے ہیں کہ یہ ٹریننگ ہی کا حصہ ہے کیونکہ اپوزیشن نے طعنے دے دے کر ہی بُرا حال کر دیا تھا۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ، گوجرانوالہ سڑک کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
مجھے فخر ہے کہ قوم کی ایک ایک پائی بچائی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مجھے فخر ہے کہ قوم کی ایک ا یک پائی بچائی‘‘ اور اس کی وضاحت کبھی اس لئے نہیں کی کہ نظر نہ لگ جائے، اور یہ وہی ایک ایک پائی ہے جس کی میں نے کرپشن نہیں کی تھی جبکہ منی لانڈرنگ کا اصل مقصد بھی قوم کا روپیہ بچانا تھا جسے باقاعدہ پائی پائی کر کے بچایا تاکہ یہ غلط لوگوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے جبکہ ہمارے پاس وہ ہر طرح سے محفوظ چلی آ رہی تھی اور یہ قومی خزانے میں جمع کرا دینا تھی لیکن بے صبری اور جلد بازی سے کام لیتے ہوئے انتقامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر عدالت کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
کسی سے کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں‘ حکومت کو جانا ہوگا: بلاول
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کسی سے کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں، وزیراعظم کو گھر جانا ہوگا‘‘ کیونکہ براہ راست رابطوں اور دے دلا کر ہمارا بوجھ کافی حد تک ہلکا ہو چکا ہے اور ہمیں کسی بیک ڈور رابطے کی ضرورت نہیں ہے اور وزیراعظم کے گھر جانے کی بات بھی محض پی ڈی ایم کی آواز کے ساتھ آواز ملانے ہی کی حد تک ہے ورنہ ہمارے راستے تو کب کے جُدا ہو چکے ہیں کیونکہ ہم نے خوب اچھی طرح اندازہ لگا اور سمجھ لیا ہے کہ اس موقع پر حکومت اگرجاتی ہے تو اس کا فائدہ صرف اور صرف نواز لیگ کو ہوگا جس کے لئے وہ باقی جماعتوں کواستعمال کرنے کی کوشش کرر ہی ہے لیکن ہم بھی سیاست دان ہیں اس لیے کوئی بھول میں نہ رہے کہ جال میں آسانی سے پھنس جائیں گے۔آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
بلاول اپنی نالائقی اور نااہلی کا ملبہ دوسروں پر نہ ڈالیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''بلاول اپنی نالائقی اور نااہلی کا ملبہ دوسروں پر نہ ڈالیں‘‘ کیونکہ حکومت نے نالائقی اور نااہلی کا سارا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کے بجائے خود اُٹھا رکھا ہے جس کے بوجھ سے کمر دہری ہو چکی ہے اور لوگ حکومت کو کُبڑا سمجھنے لگ گئے ہیں اور یہ کسی اچھی سی لات کی منتظر ہے تاکہ یہ کُب نکل سکے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ بوجھ مہنگائی کی طرح کمر توڑ بھی ثابت ہو سکتا ہے جبکہ اس سے بلاول کو سبق سیکھنا چاہیے اور نالائقی اور نااہلی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کے بجائے خود اٹھانا چاہیے تاکہ ہماری طرح اسے بھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو سکے۔آپ اگلے روز بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس پر اپنا ردعمل ظاہر کر رہے تھے۔
اُردو و غزل گو شعرا عہد بہ عہد
یہ کتاب نثار دانش نے لکھی ہے جسے ورلڈ ویو پبلشر لاہور نے چھاپا ہے۔ یہ آغاز سے 2020ء تک کے شعرا کا تحقیقی جائزہ ہے جو دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنؤ، ترقی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدت پسند ادبی تحریک کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ انتساب تمام اساتذہ کرام جامعہ پشاور، جامعہ ہزارہ اور جامعہ صوابی کے نام ہے۔ ٹائٹل پر جن شعرا کی تصاویر شائع کی گئی ہیں ان میں میر تقی میرؔ، مرزا غالبؔ، ڈاکٹر محمد اقبال، فیض احمد فیضؔ، یہ خاکسار، ادا جعفری، جون ایلیا، سالم سلیم، ڈاکٹر اسحق وردگ اور عمر فرحت شامل ہیں۔ دیباچہ و فلیپ نگاروں میں ڈاکٹر اسحق وردگ، ڈاکٹر روبینہ شاہین، ڈاکٹر تاج الدین تاجور اور مصنف شامل ہیں۔ کتاب کا آغاز اس شعر سے کیا گیا ہے ؎
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں
پسِ سرورق مصنف کی تصویر ہے اور اُن کی تصانیف کی فہرست۔
اور‘ اب آخر میں مسعود احمد کی تازہ غزل:
خوابوں کی سرزمین وہ جنگل وہ جھاڑیاں
سبزہ کدھر ہے اور کدھر کھیتی باڑیاں
کیسا غدر مچایا گیا تارکول کا
سڑکوں پہ کیسے شور مچاتی ہیں گاڑیاں
ملتے نہیں کسی کو یہاں سو پچاس بھی
اربوں کی لگ رہی ہیں وہاں پر دیہاڑیاں
ان جھونپڑوں میں ہم کو برابر سکون تھا
اچھی کہاں لگیں گی تیری محل ماڑیاں
اٹھلا رہی ہیں اس کی طرف دیکھ دیکھ کر
کمخواب سے بدن پہ وہ ریشم کی ساڑھیاں
غم تھا کہ مجھ میں خوف کے مارے چھپا رہا
خوشیاں بہت قریب مرے آ کے دھاڑیاں
سرطان کی طرح سے دوبارہ نکل پڑیں
یادیں یہ سب کی سب تھیں جڑوں سے اکھاڑیاں
حالت ہماری دیکھ کے آئینہ رو پڑا
کیسے گزرتے وقت نے شکلیں بگاڑیاں
ہم سے تمہاری بات مکمل نہ ہو سکی
لکھ لکھ کے ہم نے کتنی کتابیں ہیں پھاڑیاں
کرتی رہیں گی عشق بھی ڈنکے کی چوٹ پر
روہی کی ناریاں وہ محبت کی لاڑیاں
پھل‘ پھول‘ پیڑ‘ کھیت‘ کنوئیں اور ڈالیاں
پکّے گھروں نے دور تک فصلیں اجاڑیاں
لیکن تمہارے نام پہ پھر بھی اڑا رہا
ہم نے ہزار خواہشیں دل کی لتاڑیاں
مسعودؔ کوہ کنی کا تسلسل ہے زندگی
سر کر رہے ہیں مشکلوں جیسی پہاڑیاں
آج کا مقطع
شاعری اور طرح کی اسے کہتے ہو ظفرؔ
میں پریشاں ہوں کہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں