"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور تازہ غزل

عوام کا خون چوسنا نالائقِ اعظم سے بہتر کوئی نہیں جانتا: مریم 
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''عوام کا خون چوسنا نالائقِ اعظم سے بہتر کوئی نہیں جانتا‘‘ حالانکہ ہم نے عوام میں خون کا کوئی قطرہ چھوڑا ہی کب تھا جسے یہ چوسنا چاہتے ہیں اور اسی لیے ان کے ہاتھ پلّے کچھ نہیں پڑ رہا، اور ان کی نالائقی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہاں سے خون کے طلبگار ہیں جہاں وہ ہے ہی نہیں اور جس کا ذائقہ ابھی تک ہماری زبانوں پر موجود ہے جبکہ یہ فریضہ ہماری حکومتوں نے جونکوں کی طرح سر انجام دیا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
شفافیت ہمارا طرۂ امتیاز، ڈھائی سال
میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدا ر نے کہا ہے کہ ''شفافیت ہمارا طرۂ امتیاز، ڈھائی سال میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا‘‘ کیونکہ اول تو ہر سکینڈل بڑی خوبصورت سے دبا دیا جاتا ہے اور اگر کوئی سر اٹھائے بھی تو ہم اسے تسلیم ہی نہیں کرتے اور روٹین کا معاملہ قرار دے دیتے ہیں، پھر کچھ لوگوں کی تعیناتی بھی کسی سکینڈل سے کم نہیں ہے جس کی اصل وجہ آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکی ہے حتیٰ کہ میں خود بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہوں بلکہ بعض اوقات تو مجھے اب بھی اس کا یقین نہیں آتا حتیٰ کہ خود وزیراعظم کی سمجھ سے بھی یہ بات باہر ہے۔ آپ اگلے روز مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران خان کو وزیراعظم کہنا جرم ہے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سر براہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو وزیراعظم کہنا جرم ہے‘‘ اور ہم جو اڑھائی سال تک اس کا ارتکاب کرتے چلے آ رہے تھے تو ہمیں اس کی سزا بھی مل رہی ہے کہ ہر مرحلے پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے اور آئندہ بھی نوشتۂ دیوار یہی نظر آ رہا ہے اور جس کی تان غریب کے اثاثوں کی ضبطی پر ٹوٹتی نظر آ رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ میرے ساتھیوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے‘ ہمیں مزید نہ ستایا جائے ورنہ ان کو ہماری بددعائیں ہی لے کر بیٹھ جائیں گی۔ آپ اگلے روز کراچی میں اسرائیل نا منظور ملین مارچ سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن کا مقصد ہر فورم کو استعمال کر 
کے نیب کو دبائو میں لانا ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کا مقصد ہر فورم کو استعمال کر کے نیب کو دبائو میں لانا ہے‘‘ جبکہ حکومت ہماری ہے اور ہر فورم کو صحیح یا غلط استعمال کرنا صرف ہمارا حق ہے اور ہم اسے استعمال بھی کر رہے ہیں جبکہ اپوزیشن تو کسی فورم کو صحیح طور پر بھی استعمال نہیں کر سکتی ، اسی لیے وہ ہر فورم پر ناکام بھی چلی آ رہی ہے اگرچہ کامیاب کوئی خاص ہم بھی نہیں ہو رہے لیکن ہمارا حکومت میں ہونا ہی ہمارے لیے کافی ہے اور کامیابیوں یا ناکامیوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان کے پاس استعفے کے سوا کوئی آپشن نہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے پاس استعفے کے سوا کوئی آپشن نہیں‘‘ جبکہ ہمارے پاس استعفے نہ دینے کا آپشن ہر وقت موجود ہے، کیونکہ سندھ میں اقتدار ہم نے حکومت کرنے کے لیے حاصل کیا تھا، مستعفی ہونے کے لیے نہیں اور اگر استعفے دے کر بھی ضمنی الیکشن ہی لڑنا ہے تو اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ نواز لیگ صرف اپنا مقصد سیدھا کرنا چاہتی ہے حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا مقصد کافی ٹیڑھا ہے اور استعفے دے کر یہ مزید ٹیڑھا ہو جائے گا اور جسے اس وقت سیدھا کرنا ہماری ضرورت ہے ۔آپ اگلے روز لاڑکانہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عوام اب پی ڈی ایم کے جھانسے میں
نہیں آئیں گے: فیاض الحسن چوہان
وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''عوام اب پی ڈی ایم کے جھانسے میں نہیں آئیں گے‘‘ کیونکہ انہوں نے پی ڈی ایم کے جھانسے میں جتنا آنا تھا، آ چکے جبکہ اب ان کے لیے حکومت کا جھانسہ موجود ہے جس میں انہیں نہایت ذوق و شوق سے آنا چاہیے کیونکہ اب حکومت کی باری بھی ہے جبکہ ایک مناسب مدت تک حکومت کے جھانسے میں ر ہ کر وہ دوبارہ پی ڈی ایم کے جھانسے میں جا سکتے ہیں جس سے ان کا ذائقہ بھی بدلتا رہے گا اور پی ڈی ایم کا بھی،اور ا س دوران حکومت کو اپنے جھانسے کے نٹ بولٹ کسنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
ہم جدھر ہیں اُدھر نہیں آتا
کیا کریں وہ اگر نہیں آتا
زندگی سے ہوں لرزہ بر اندام
موت سے مجھ کو ڈر نہیں آتا
دائیں بائیں تو دیکھ سکتا ہوں
سامنے ہی نظر نہیں آتا
وہ محبت ہو یا عداوت ہو
کوئی بھی کام کر نہیں آتا
جستجو میں مزہ نہیں کوئی
گفتگو میں اثر نہیں آتا
اور تو سارے آتے جاتے ہیں
آنے والا مگر نہیں آتا
سفر ایسا ہے جس کے رستے میں
دشت آتا ہے، گھر نہیں آتا
عیب اپنے ہی کر سکے نہ بیاں
ورنہ کیا کیا ہُنر نہیں آتا
شیشۂ دل عجیب شے ہے، ظفرؔ
ٹوٹتا ہے، ضرر نہیں آتا
آج کا مطلع
کوئی ہم سے مذاکرات بھی کر
شکل دکھلائی ہے تو بات بھی کر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں