بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں: تابش گوہر
وزیراعظم کے معاون خصوصی تابش گوہر نے کہا ہے کہ ''بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں‘‘ جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک ہفتے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جائے، کیونکہ اضافہ نہ کرنا بھی اس کی قیمتوں میں کمی ہی ہو گا، جبکہ اب بھی تقریباً ہر ہفتے بعد قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، و یسے بھی، جبکہ یہ بجلی ہے تو اس میں بجلی ہی کی سرعت سے اپنے آپ ہی اضافہ ہو جاتا ہے اور اس منصوبے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ عوام کو بجلی کی سپلائی ہی میں خاطر خواہ کمی کر دی جائے گی، کیونکہ جتنی بھی وہ کم بجلی خرچ کریں اتنا ہی انہیں بل بھی کم آئے گا اور بجلی کی مہنگائی کافی حد تک رفع ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
تحریک عدم اعتماد کیلئے اتحادیوں کو منائیں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے اتحادیوں کو منائیں گے‘‘ جبکہ اتحادیوں کو یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد کسی صورت منظور نہیں ہو سکتی، لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس میں بھی کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتی، اس لیے اگر ناکام ہی ہونا ہے تو میرے کہنے سے کیوں نہ ہو جائیں، کیونکہ ویسے بھی پی ڈی ایم کی کامیابی دراصل نواز لیگ کی کامیابی ہوگی جبکہ اس کی ناکامی ہر طرح سے ہمارے ہی حصے میں آئے گی اور ہم اس رسوائی سے بھی بچ جائیں گے جو پی ڈی ایم والوں کا مقدر نظر آتی ہے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں ایک نئے انڈسٹریل سٹیٹ کی تعمیر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
حکمران ٹولے سے نجات کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمران ٹولے سے نجات کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی‘‘ کیونکہ پی ڈی ایم جو کچھ کر رہی ہے وہ جدوجہد نہیں بلکہ ایک کھلا مذاق ہے اور حکمران اس سے روز بروز مزید مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ یہ سارا کام ہمارے سپرد کر دیا جائے کیونکہ اگر مذاق ہی اڑانا ہے تو ہم یہ کام زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں اور یہ کارروائی میری روزانہ کی تقریروں سے کافی حد تک ہوتی بھی رہتی ہے کیونکہ حکمران باتوں کے بھوت ہیں، لاتوں کے نہیں، اس لیے پی ڈی ایم والے سڑکوں پر لاتیں چلا چلا کر صرف اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز جماعت اسلامی کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ذمہ دارانہ صحافت کے فروغ کیلئے کوشاں رہیں گے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''ملک میں آزاد اور ذمہ دارانہ صحافت کے فروغ کے لیے کوشاں رہیں گے‘‘ جبکہ فی الحال تو صورتحال یہ ہے کہ صحافت آزاد تو ہے لیکن زیادہ ذمہ دارانہ نہیں اس لیے اس کی آزادی ذرا کم اور ذمہ داری بڑھانے کی کوشش ہم کرتے رہتے ہیں تا کہ دونوں میں ایک تناسب قائم رہے، اور جب سے ہمارے ایک وزیر نے بھری محفل میں ایک صحافی کو مُکّہ دے مارا تھا صحافت میں ذمہ داری کے عنصر میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے آپ اگلے روز اسلام آباد میں گفتگو کر رہے تھے۔
بچوں کو بغیر امتحان پاس نہیں کریں گے: سعید غنی
وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ''بچوں کو بغیر امتحان پاس نہیں کریں گے‘‘ جبکہ امتحان میں بھی انہیں کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑتا ‘ یا تو پرچہ وقت سے پہلے آئوٹ ہو جاتا ہے یا امتحانی مراکز میں نقل کی کھلی اجازت ہوتی ہے اور سپرنٹنڈنٹ حضرات بھی چشم پوشی سے کام لیتے ہیں کیونکہ محنت اور عرق ریزی نقل کے لیے بھی بے حد ضروری ہوتی ہے، کیونکہ نقل کے لیے متعلقہ کتاب میں سے ضروری مواد ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں ہے؛ چنانچہ یہ صحتمندانہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امتحان کے نتائج تقریباً سو فیصد ہی نکلتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں امتحانات کے شیڈول پر مشاورت کے موقعہ پر گفتگو کر رہے تھے۔
معزز میئر
ایک صاحب کو جب معلوم ہوا کہ ان کے ایک دوست کسی شہر میں میئر لگے ہوئے ہیں تو وہ انہیں ملنے کے لیے چلے گئے۔ میئر کے گھر کا پتا معلوم کرنے کے لیے ایک سبزی فروش سے پوچھا تو وہ بولا''کس منحوس رشوت خور کی بات کر رہے ہو، تمہارا کیا لینا دینا ہے اس سے؟ اس کے بعد اس نے ایک لانڈری والے سے پوچھا تو اس نے بھی لعن طعن کرتے ہوئے ایسا ہی جواب دیا۔ تین چار جگہوں سے ناکام ہونے پر انہوں نے چوک میں کھڑے ایک پولیس کانسٹیبل سے پوچھا تو اس نے موصوف کو بتایا، وہ اس کے گھر پہنچے اور اس کے گھر کی آرائش اور ٹھاٹ باٹھ دیکھ کر خوش ہوئے، اور اس سے پوچھا: تمہیں اس کام کی کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ جس پر اس نے جواب دیا:میں اس کام کی تنخواہ نہیں لیتا، شہر میں جو عزت بنی ہوئی ہے، میرے لیے وہی کافی ہے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
وہ میری راہ دیکھتی ہے
وہ میری راہ دیکھتی ہے
وہ میری راہ ایسے دیکھتی ہے
جیسے جاگنے میں نیند
یا نیند میں خواب دیکھتے ہیں
منہ اندھیرے کھیتوں کو جاتے ہوئے
کپاس کے پھول چنتے ہوئے
یا اوک سے پانی پیتے ہوئے
کاندھوں پر بادل دھرے
یا ہونٹوں میں پھول تھامے
کھلی چھت پر تاروں سے کھیلتے
یا لحاف میں منہ چھپائے
درختوں سے لپٹ کر
یا چاندنی اوڑھ کے
دن کے میدانوں میں
یا شام کی اوٹ سے
وہ۔۔۔۔ ہوائوں کے رنگ دیکھتی ہے
اور میری راہ دیکھتی ہے
تعمیر سے انہدام تک
زمان و مکان کے درمیان
موجود سے معدوم تک
وہ میری راہ دیکھتی ہے
اور زمین نیا آسمان اوڑھ لیتی ہے
پیڑ۔۔۔ پرندے تبدیل کر لیتے ہیں
چاندنی پانیوں پر چمک جاتی ہے
اجنبی موسموں کی
ہوا چلتی ہے۔۔۔۔ راستوں میں
مٹی اُڑتی ہے
اور بیٹھ جاتی ہے
وہ نیند میں چلتی ہے
اور میری راہ دیکھتی ہے
آج کا مطلع
اب اور چاہتا کیا ہے مجھے بتاتو سہی
کہ میں نے تیرے تغافل کی ہر ادا تو سہی