نا اہلوں کی سزا پاکستان بھگت رہا ہے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نا اہلوں کی سزا پاکستان بھگت رہا ہے‘‘ حالانکہ ابھی پاکستان اہلوں کی سزا ہی بھگت بھگت کر بے حال ہو رہا تھا اس لیے نا اہلوں کو ذرا توقف کر کے آنا چاہیے تھا اور اس بے حالی سے بحال ہونے کے لیے ابھی مزید ایک صدی درکار ہو گی جبکہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ زندہ قوموں کی صدی بھی ایک چٹکی میں گزر جایا کرتی ہے اور یہ قوم اگر اب تک زندہ ہے تو اس سے بڑھ کر ثابت قدم بھی اور کوئی قوم نہ ہو گی لیکن نا اہلوں کے آگے یہ بھی بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ آپ اگلے روز دیگر پی ڈی ایم رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ن لیگ کی جائیدادیں سامنے آنے والی ہیں: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ن لیگ کی 100 ملین ڈالرز کی جائیدادیں سامنے آنے والی ہیں‘‘ تاہم ان پر بے فائدہ ہی رال ٹپکائی جا رہی ہے کیونکہ یہ جائیدادیں بھی دیگر جائیدادوں کی طرح کسی کام نہ آئیں گی اور نہ ہی میاں نواز شریف کو لندن سے واپس لائے جانے کا کوئی امکان ہے جو ہم سب کو بیوقوف بنا کر یہاں سے رفو چکر ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے ؛اگرچہ میں اس بارے بہت امید افزا بیانات دیتا رہتا ہوں لیکن اندر سے ہم سب کو حقیقت معلوم ہے اور یہ بیان دینا بھی بہت ضروری ہے کہ انسان کو کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی نے عوام کو بُری طرح مایوس کیا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی نے عوام کو بُری طرح مایوس کیا‘‘ اور اسی سے نالائقی اور نا اہلی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اگر عوام کو اچھی طرح مایوس کیا جا سکتا ہے تو بُری طرح مایوس کرنے کی کیا ضرورت ہے؛ چنانچہ اگر عنانِ اقتدار ہمارے ہاتھ میں ہوتی تو ہم نے انہیں خوب اچھے طریقے سے اور پوری تسلی کے ساتھ مایوس کرنا تھا کیونکہ نہ صرف عوام کی قسمت میں مایوس ہونا لکھا ہے بلکہ اب انہیں مایوس رہنے کی عادت بھی پڑ چکی ہے جبکہ ہر حکومت کا اولین مقصد عوام کو مایوس ہی کرنا ہوتا ہے جس میں وہ پوری طرح کامیاب بھی رہتی ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں تنظیمی دورے کے دوران خطاب کر رہے تھے۔
ووٹ چوروں کو چین سے نہیں بیٹھنے دینگے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ووٹ چوروں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے‘‘ کیونکہ اگر وہ خزانہ چوروں کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے اور ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین ان پر حرام کر رکھا ہے، تو وہ انہیں چین سے کیوں بیٹھنے دیں؛ اگرچہ وہ خود اپنے ہاتھوں ہی چین اور آرام سے محروم ہو چکے ہیں اور پیپلز پارٹی کا داغِ مفارقت اپنے زخمی سینوں پر لیے پھرتے ہیں اور اب انہوں نے لانگ مارچ وغیرہ کے بجائے تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ دیا ہے حالانکہ اس میں تاابد کامیابی نہیں ہو سکتی؛ اگرچہ بصورتِ دیگر بھی ناکامی ہی منہ پھاڑے کھڑی نظر آتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیگر پی ڈی ایم رہنمائوں کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نئے بزنس ماڈلز کے ذریعے ریلوے
کو پائوں پر کھڑا کریں گے: اعظم سواتی
وزیر ریلوے اعظم سواتی نے کہا ہے کہ ''نئے بزنس ماڈلز کے ذریعے ریلوے کو پائوں پر کھڑا کریں گے‘‘ اگرچہ ابھی تو خود ہی پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ریلوے کی باری بھی آ جائے گی، جبکہ ویسے بھی ریلوے ٹرینوں کا اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی نسبت چلتے رہنا زیادہ مفید ہوتا ہے حتیٰ کہ حکومت بھی کھڑی ہونے کی نسبت چلتی ہی رہنی چاہیے اس لیے امید ہے کہ ان دونوں کو پائوں پر کھڑا کرنے کی غلطی ہم کبھی نہیں کریں گے، کیونکہ اپنے حصے کی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ غلطیاں ہم پہلے ہی کر چکے ہیں اور مزید غلطیوں کی گنجائش ہرگز نہیں ہے۔ آپ اگلے روز سینئر وزیراعظم عبدالعلیم خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے علی عباس رضوی کی یہ نظم:
ماں
پرندو ہم کو دفنائو
ہمیں جرمِ محبت میں ہماری ماں نے مارا ہے
ہماری نعش بے گور و کفن
ذیلی سڑک پر کچرہ زاروں سے ادھر
برفاب ہوتے بے ثمر پیڑوں کی چھائوں میں
پڑی گلنے لگی ہے
کئی بے برگ شاخوں نے ہمیں کل رات رویا
اور ابھی کچھ دیر پہلے کچھ درندوں نے ہمیں سونگھا
پھر اک دُوجے کو دیکھا
اور جس جانب سے آئے تھے، اُدھر ہی چل دیے ہیں
اے مرے اچھے پرندو!
کون ہیں ہم، کس کے جائے ہیں
ہمارے دانت گن کر ددھ کی تاثیر کو جانو
ہمارے قتل پر بچھڑے کی قربانی نہیں ہوگی
ہمارے جسم پر تازہ لہو کے داغ ہیں
شانوں پہ مُہرِ کا سبی
گردن پہ نیلاہٹ، لبوں پر پپڑیاں ہیں
اور ہماری ناف سے جھڑتی سفیدی
آنکھ سے رستے ہوئے خوابوں کی نیلی روشنائی
کاسنی رنگوں میں ڈھلتی جا رہی ہے
ہماری بند آنکھوں میں جمی پلکیں اٹھا کر
خواب پڑھ لو
اور قلم شل ہونے سے پہلے
انہیں دیوار پر لکھ دو
پرندو! اے مرے پیارے پرندو!
بیری کی شاخوں سے اُترو
اک نظر۔۔۔۔ بس اک نظر
یہ کاسنی تحریر پڑھ لو
نظر بھر کر ہمیں دیکھو
پرندو! کس لیے خاموش ہو
گردن اٹھائو
اے پرندو!!! اے پرندو!!! اے پرندو!!!
تم اگر قبریں بنانے کا ہُنر بھی بھول بیٹھے ہو
تو ہم کو نوچ کر کھائو
ہمارے ماس کا ذرّہ نہ چھوڑو
ہڈیوں تک کو چبا جائو
وگرنہ روزِ محشر ہم
تمہاری نسل کے سارے پرندوں کی شکایت
شافعِ محشر سے کر دیں گے
مبادا یسا ہو جائے، پرندو!
ہم کو دفنا دو ہمیں جرمِ محبت میں
ہماری ماں نے مارا ہے
آج کا مقطع
اگرچہ بے سود ہے مصروف تو رکھتی ہے‘ ظفر
یہ محبت جو ابھی خود سے چھپائی ہوئی ہے