"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن ’’سویرا‘‘ اور ابرار احمد

حکومت کے سیاسی سٹرکچر پر کرپشن
کا کوئی الزام نہیں: فواد چودھری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''حکومت کے سیاسی سٹرکچر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں‘‘ جبکہ حکومت کا غیر سیاسی سٹرکچر یہ کمی اچھی طرح پوری کر رہا ہے مثلاً جو لوگ نئے نئے ہیں اور انہیں سیاسی تجربہ حاصل نہیں وہ اپنی معصومیت میں اس کام پر لگے ہوئے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس دوران سیاسی تجربہ بھی حاصل کر لیں گے اور اس کام سے دست کش ہو جائیں گے‘ انہوں نے سیاسی ٹریننگ حاصل کرنا شروع کر دی ہے تا کہ وہ نہائے دھوئے گھوڑے بن کر سیاسی سٹرکچر میں شامل ہو سکیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
وزیراعظم کرپٹ ہو تو ہر طرف کرپشن
ہی کرپشن نظر آتی ہے: مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کرپٹ ہو تو ہر طرف کرپشن ہی کرپشن نظر آتی ہے‘‘ اور ہمیں اس کا پورا پوا تجربہ بھی حاصل ہے، لیکن یہ کرپشن ترقی سے جڑی ہوئی ہوا کرتی تھی جس کے بغیر ترقی ہو ہی نہیں سکتی تھی؛ چنانچہ پورا ملک ہی قومی ترقی میں مصروف ہو گیا تھا اور ترقی کے ساتھ ساتھ مجبوراً کرپشن بھی کرنا پڑنی تھی، جبکہ موجودہ حکومت میں ترقی اس لیے نہیں ہو رہی کہ اس کے لوازمات ہی پورے نہیں ہو رہے، جس سے اس کی نالائقی بھی ثابت ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ نشر کر رہی تھیں۔
لاڈلے کو حالات ٹھیک کرنے
کیلئے 20 سال مزید چاہئیں: کائرہ
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''لاڈلے کو حالات ٹھیک کرنے کے لیے 20 سال مزید چاہئیں‘‘ اور ہم دونوں پارٹیوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا تھا کہ یہ اگر 20 سال میں بھی ٹھیک ہو جائیں تو عین غنیمت ہے ورنہ اس مقصد کے لیے کم از کم ایک سو بیس سال کا وقت درکار ہے اور اگر یہ حکومت اس طرح مسائل حل کرتی رہی تو آئندہ ایک سو بیس سال تک بھی اس سے چھٹکارا حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا جبکہ ہم نے تو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور اثاثے بنانے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے معیشت کا بوجھ کافی ہلکا کر دیا تھا۔ آپ اگلے روز حیدرآباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف بطور وزیراعظم نوکری کرتے رہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف بطور وزیراعظم نوکری کرتے رہے‘‘ کیونکہ ساری نیک کمائی ان کے صاحبزادگان سمیٹ کر لندن لے جاتے تھے اور انہیں بمشکل وہ تنخواہ ہی بچتی تھی جو وہ بیرون ملکی کمپنی سے حاصل کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ وہ بھی اکثر اوقات انہیں نصیب نہیں ہوتی تھی اور انہیں اِدھر اُدھر سے قرض بھی لینا پڑتا تھا؛ چنانچہ اس قابلِ رحم صورتحال کے پیش نظر وہ پوری پوری ہمدردی کے مستحق پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اب بھی لندن میں کہیں نوکری ہی کرتے ہوں آپ اگلے روز کراچی میں دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ملکیت کے ثبوت موجود، جھوٹا نکلا تو
سزا کے لیے تیار ہوں: افضل کھوکھر
نواز لیگ کے رہنما افضل کھوکھر نے کہا ہے کہ ''ملکیت کے ثبوت موجود، جھوٹا نکلا تو سزا کے لیے تیار ہوں‘‘ اگرچہ جھوٹا نکلنے پر ویسے بھی سزا یاب ہو کر اندر ہو جائوں گا اس لیے میرے تیار ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؛ تاہم یہ ملک ہمارا ہے اور اس کی ساری زمین کے مالک بھی ہم ہی ہیں جبکہ دورِ شریفاں میں تو یہی سکّۂ رائج الوقت بھی تھا اور حاجتمند لوگ اس کے مکمل طور پر مستحق سمجھے جاتے تھے، میر ے جیسے عاجز و مسکین نے بھی اگر ایک جھگی ڈال لی تو کون سی قیامت آ گئی۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں بابر اعوان کی تنقید کا جواب دے رہے تھے۔
سویرا 100-
ممتاز اور قدیم ادبی جریدے سویرا کا سوواں شمارہ محمد سلیم الرحمن اور ریاض احمد کی ادارت میں شائع ہو گیا ہے۔ اسے ادارہ قوسین نے چھاپا کیا ہے اور اس میں حسب معمول معتبر ادیبوں کی نگارشات شامل کی گئی ہیں ۔ حصۂ مضامین میں خورشید رضوی، امین راحت چغتائی، شمیم حنفی اور تحسین فراقی شامل ہیں اور مستنصر حسین تارڑ کا ناولٹ، افسانوں میں محمود احمد قاضی، صدیق عالم، اخلاق احمد، ناصر عباس نیّر و دیگران جبکہ حصۂ غزل میں امین راحت چغتائی، امجد اسلام امجد، صابر ظفر، تحسین فراقی اور کاشف حسین غائر نمایاں ہیں اور حصۂ نظم میں امین راحت اور امجد اسلام کے علاوہ سعید احمد اور توقیر عباس شامل ہیں۔ آغاز میں نعت اور سلام میں معین نظامی اور کرامت بخاری نے یہ سعادت حاصل کی ہے۔ ادب، آرٹ اور کلچر کے اس مرقعے کی سوویں اشاعت پر ہماری طرف سے دلی مبارک باد!
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
تحرک اور سرخوشی سے بھری ایک شام
تم ایک دمکتے منظر کی طرح
میرے پاس رک گئے
اور میں
تادیر رہنے والی مہک کی لپیٹ میں آ گیا
وقت کے سفاک قدم
میرے سینے میں لا تعداد گھائو
بنا چکے تھے
جو اچانک لو دینے لگے
بے ٹھکانہ ہُوا کرتی ہیں خوشبوئیں
سو میں نے تمہیں
ایک باغ کی جانب
پیش قدمی کرتے ہوئے دیکھ لیا
اور کٹھن راستے کے چند قدم
ہموار کرتے ہوئے سوچا
تمہارے گرد
ہمیشہ کے لیے پھول کھلتے رہیں
اور اب تم رنگوں سے کھیلتے
باہیں لہرا کر محوِ رقص ہو
ادھر ایک بھولا بسرا گیت
میرے سینے سے
کبھی کبھی ٹکرانے لگتا ہے
کون جانے بہت آگے چل کر
کسی مضافات سے گزرتے ہوئے
ایک موہوم یاد تمہیں روک لے
اور وقت کو
چند ثانیوں کے لیے
تمہارے ہونٹوں پر منجمد کر دے
آج کا مقطع
میں چوم لیتا ہوں اُس راستے کی خاک ، ظفر
جہاں سے کوئی بہت بے خبر گزرتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں