پیپلز پارٹی استعفے دے نہ دے،
لیگی ارکان تیاری کر لیں: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی استعفے دے‘ نہ دے، لیگی ارکان تیاری کر لیں‘‘ اور میرا زور صرف تیاری پر ہے، استعفوں پر نہیں، جس طرح میں واپسی کی تیاری کر رہا ہوں لیکن واپسی کا دور دور تک کوئی ارادہ نہیں ہے اسی طرح لیگی ارکان بھی استعفوں کی تیاری کر لیں اور تیاری سے مراد یہ ہے کہ جس قلم سے استعفیٰ لکھنا ہے یا جس کاغذ پر اسے تحریر کرنا ہے اس اپنے سرہانے کے پاس دھر لیں اور میرے اشارے کا انتظار کریں کیونکہ فی الحال تو ہم ضمنی الیکشن اور سینیٹ انتخابات میں مصروف ہیں اور ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ اگر ہم ضمنی الیکشن میں جا رہے ہیں تو پھر استعفوں کا کیا جواز ہے۔ آپ اگلے روز فون پر مولانا فضل الرحمن سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو پی ڈی ایم سے کوئی خطرہ نہیں: شاہ محمودقریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''حکومت کو پی ڈی ایم سے کوئی خطرہ نہیں‘‘ اور اب تو وزیراعظم نے بھی یہ کہہ دیا ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب وزیراعظم کو یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں رہی کہ گھبرانا نہیں اور امید ہے کہ انہوں نے حکومت نے بھی اب گھبرانا چھوڑ دیا ہوگا اور چونکہ پیپلز پارٹی والے استعفے نہیں دے رہے اس لئے وزیراعظم نے بھی استعفیٰ مؤخر کر دیا ہے کیونکہ وہ لانگ مارچ سے مشروط تھا جو اب مارچ ہی میں ہوگا ۔آپ اگلے روز ملتان سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم نے حکومت کا غرور
خاک میں ملا دیا: فضل کریم کنڈی
پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم نے حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا‘‘ کیونکہ پیپلز پارٹی نے استعفے نہ دینے کا فیصلہ کر کے حکومت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور اس کی ضمنی انتخاب کرانے کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی البتہ پی ڈی ایم کے ساتھ بیوفائی کر کے ہم تنہائی کی سی صورت حال سے دوچار ہیں؛ اگرچہ اس سے پہلے بھی ہماری صورت احوال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی کیونکہ اس ملک کے ساتھ جس جس نے جو جو سلوک کیا ہے وہ اُسے بھی اچھی طرح سے یاد ہے اور ملک کو بھی، البتہ مستقبل کے ارادے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں کیونکہ آدمی اندر سے کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کا کوئی مستقبل نہیں: عثمان ڈار
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کا کوئی مستقبل نہیں‘‘ بلکہ اس کا ماضی بھی خاصا مشکوک ہو چکا ہے‘ ہمارا کم از کم ماضی تو موجود اور واضح ہے اور اپنے مستقبل کی بات اس لئے نہیں کر سکتے کہ ہم کوئی نجومی نہیں ہیں جو اُلٹی سیدھی پیش گوئیاں کرتے پھریں، بیشک ہمارا حال زیادہ قابلِ رشک نہیں ہے اور مستقبل کا انحصار حال ہی پر ہوتا ہے اس لئے بھی مستقبل کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے؛ تاہم یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جس طرح اب ہم مسندِ اقتدار پر بیٹھے ہیں‘ مستقبل کا بھی اللہ مالک ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
آزاد کشمیر انتخابات میں بھرپور مہم چلائیں گے: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''آزاد کشمیر انتخابات میں بھرپور مہم چلائیں گے‘‘ اگرچہ ہم نے حکومت کے خلاف بھی بھرپور مہم چلائی تھی لیکن اس کے نتائج اچھے نہیں نکلے جبکہ اسی طرح والد صاحب کی طرف سے بھی ایک مہم چلائی گئی تھی مگر اس بھرپور مہم کا بھی اُلٹا ہی نتیجہ نکلا ہے اور خود پارٹی تین حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے جس کی وجہ وہی بھرپور مہم ہو سکتی ہے؛ چنانچہ ہم اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں آئندہ جو کوشش بھی کی جائے وہ بھرپور بالکل نہ ہو، علاوہ ازیں قبضے چھڑوا چھڑوا کر حکومت نے ہمارے ساتھیوں کو ہلکان کر رکھا ہے‘ اس وجہ سے بھی وہ بھرپور مہم چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز پی ڈی ایم جلسے پر تبادلہ خیال کر رہی تھیں۔
دیوارِ گریہ کے آس پاس
یہ اسرائیل کا باتصویر سفر نامہ ہے جسے کاشف مصطفی نے تحریر کیا، محمد اقبال دیوان نے مرتب کیا اور قوسین نے چھاپا ہے۔ انتساب ابو اور امی کے نام ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ کاشف مصطفی کا قلمی ہے جبکہ پسِ سرورق تحریر بھی انہی کے قلم سے ہے جو کہ ان کے مضمون ہی سے اقتباس ہے۔ اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ پہلا حصہ عرضِ مصنف کے عنوان سے کاشف مصطفی کی تحریر ہے جبکہ دوسرا مضمون بعنوان ''کیا کہیے حالِ دلِ غریب جگرؔ‘‘ محمد اقبال دیوان کے قلم سے ہے۔ اس کے بعد بھی تین حصے یعنی دیوارِ گریہ کے آس پاس، تصاویر اور اختتامیہ کاشف مصطفی کی کاوش ہے۔ آرٹ پیپر پر تصاویر نے اس کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں اور کتاب کی دلچسپی اور افادیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ گیٹ اَپ عمدہ ہے اور کتاب قابلِ مطالعہ۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعرو شاعری:
کارِ بے کار سے نکل آئی
رُوح آزار سے نکل آئی
تیری تصویر کیا لگائی ہے
بیل دیوار سے نکل آئی
کیوں سڑک جام ہو گئی یک دم
کون یہ کار سے نکل آئی
کچھ خوشی آپ کے وسیلے سے
غم کے انبار سے نکل آئی
اُن بہتّر کا غم قیامت تھا
آہ تلوار سے نکل آئی
اک حقیقت ترے فسانے میں
میرے کردار سے نکل آئی
نئی تہذیب اوڑھ کر آزادؔ
زندگی غار سے نکل آئی (آزاد حسین آزادؔ)
اک نئے شہرِ خوش آثار کی بیماری ہے
دشت میں بھی در و دیوار کی بیماری ہے
ایک ہی موت بھلا کیسے کرے اس کا علاج
زندگانی ہے کہ سو بار کی بیماری ہے
بس اسی وجہ سے قائم ہے مری صحتِ عشق
یہ جو مجھ کو ترے دیدار کی بیماری ہے
لوگ اقرار کرانے پر تُلے ہیں کہ مجھے
اپنے ہی آپ سے انکار کی بیماری ہے
یہ جو زخموں کی طرح لفظ مہک اُٹھتے ہیں
صرف ایک صورتِ اظہار کی بیماری ہے
گھر میں رکھتا ہوں اگر شور مچاتی ہے بہت
میری تنہائی کو بازار کی بیماری ہے (سالم سلیم‘ نئی دہلی)
آج کا مقطع
آنکھوں سے آتے جاتے الجھتا ہے، اے ظفرؔ
دیوار پر لکھا ہوا کچھ اُس کے ہاتھ کا