"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، ’’کماری والا‘‘ اور فیصل ہاشمی

نو گھنٹے بیٹھ کر کام کرنے سے وزن بڑھ گیا ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''نو گھنٹے بیٹھ کر کام کرنے سے وزن بڑھ گیا ہے‘‘ اس لیے میں یہ پرویز خٹک صاحب سے بھی کہوں گا کہ ادھر اُدھر پھرنے کے بجائے وہ بھی بیٹھ کر کام کریں تا کہ ان کا وزن بھی بڑھ سکے کیونکہ ان کی تو اب صرف ہڈیاں ہی باقی رہ گئی ہیں اور وہ چلتا پھرتا ڈھانچا محسوس ہوتے ہیں، بلکہ وہ خاموش چل بھی رہے ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ باتیں کر رہے ہیں کیونکہ ان کی ہڈیاں آپس میں کھڑکھڑا رہی ہوتی ہیں، حتیٰ کہ میرے خلاف بیان دیتے ہیں تو بعد میں کہتے ہیں کہ اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ ہڈیوں کے کھڑکھڑانے ہی سے بات کا مطلب تبدیل ہو جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بلاول اور مریم اب حکومت کے خلاف
بددعائوں کی مہم چلائیں: فواد چودھری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد احمد چودھری نے کہا ہے کہ ''بلاول اور مریم اب حکومت کے خلاف بددعائوں کی مہم چلائیں‘‘ کیونکہ ہماری حکومت تو چل ہی دعائوں کے بل بُوتے پر رہی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ اس پر بددعائوں کا ہی اثر ہو گا جبکہ اس کام کے لیے ان کے سربراہ مولانا ہی کافی ہیں جبکہ بصورتِ دیگر تو اُنہیں اور کوئی کام بھی نہیں ہے، اس لیے بہتر ہے کہ انہیں صرف اس کام کے لیے مخصوص کر دیا جائے کیونکہ نہ تو استعفے آ رہے ہیں اور نہ ہی لانگ مارچ سے کوئی فرق پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب حلف برداری سے خطاب کر رہے تھے۔
تحریک انصاف کے 25 ایم این ایز
رابطے میں ہیں: فیصل کریم کنڈی
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف کے 25 ایم این ایز رابطے میں ہیں‘‘ اور درخواست کر رہے ہیں کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے، جنہیں ہم نے کہا ہے کہ حکومت ہم سے اور کتنا تعاون چاہتی ہے کہ ہم نے استعفوں سے انکار کر کے پی ڈی ایم کے سارے پلان ہی کو تہس نہس کر دیا ہے بلکہ تحریک عدم اعتماد کا مطالبہ کر کے ان کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے اور لانگ مارچ کے لیے بھی ہم اتنے پُر جوش نہیں ہیں اور پی ڈی ایم کا شیرازہ کسی وقت بھی بکھر سکتا ہے، اس لیے ہمیں شاباش دینے کے بجائے ھل من مزید کا مطالبہ سراسر زیادتی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں شازیہ مری اور دیگران کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام نے اپوزیشن کو مسترد کر کے منتخب
جمہوری حکومت کا ساتھ دیا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عوام نے اپوزیشن کو مسترد کر کے منتخب جمہوری حکومت کا ساتھ دیا‘‘ اور منتخب جمہوری حکومت کہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عام طور پر اس کے بارے میں خاصے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور عوام کو یقین دلانا اور شکوک و شبہات سے نکالنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے جبکہ حکومت دیگر ذمہ داریوں سے قطع نظر کر سکتی ہے لیکن اس سے نہیں جبکہ یقینِ محکم قائداعظم کا بھی فرمان ہے اور ہماری کوشش ہے کہ کم از کم قائداعظم کے ایک فرمان کو تو عملی جامہ پہنایا جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے عوامی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کر رہے تھے۔
حکومت کے خلاف حتمی کارروائی کا
فیصلہ 4 فروری کو ہوگا: رانا ثناء اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب اور نواز لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''حکومت کے خلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ 4 فروری کو ہوگا‘‘ کہ تاریخیں دے دے کر حکومت کی مت مار دی جائے، اور وہ ان تاریخوں ہی کے بوجھ تلے دب کر رخصت ہو جائے کیونکہ ہمارا اس کے خلاف اور تو کوئی حربہ کامیاب ہو ہی نہیں رہا حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے انکار نے امید کی رہی سہی کرنیں بھی بجھا دی ہیں جس سے ہمیں ایسی ہی امید تھی کیونکہ انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ حکومت کو گرا کر ہم اپنا کام نکلوانا چاہتے ہیں جبکہ کام نکلوانے ہی کے لیے ہوتا ہے اور پڑے پڑے خراب ہو جاتا ہے اور کسی کام کا نہیں رہتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کماری والا
یہ تھوڑے ہی عرصے میں زور دار طریقے سے سامنے آنے والے ادیب اور شاعر علی اکبر ناطق کا دوسرا ناول ہے جبکہ ان کا پہلا ناول ''نو لکھی کوٹھی‘‘ چند برس پہلے شائع ہو کر اہلِ ادب و ذوق سے غیر معمولی تعریفیں سمیٹ چکا ہے جبکہ ''لوح‘‘ کے ضخیم ناول نمبر میں اس کا ذکر نہ ہونا حیران کن ہے۔ اسے معروف ناشر بُک کارنر نے چھاپا ہے۔ کوئی ساڑھے چھ سو صفحات پر محیط اس ناول کا انتساب جواں مرگ بھائی علی اصغر اور مقتولہ بہن خدیجہ بی بی کے نام ہے۔ پسِ سرورق عرفان جاوید کی تحسینی رائے درج ہے۔ پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے جبکہ اندرون سرِ ورق مصنف کی دیگر نثری تخلیقات کے ٹائٹل شائع کیے گئے ہیں۔ یہ ناول جتنا ضخیم ہے اتنا ہی دلچسپ، اور بہت اچھے ناولوں کی کمی کو بخوبی پورا کرتا ہے۔
اور‘ اب آخر میں فیصل ہاشمی کی یہ نظم:
بے رتبہ آنکھیں
کتنا آساں ہے یہ کہنا:
یہ تیری ناکامی صلہ ہے تیرے کرموں کا!
اسمِ اعظم سے پہچانے جانے والے
میری نیکی کی سچائی
میری جبیں اور میرے سجدے
تیرے جہانوں کی گردش میں
ٹھوکریں کھا کر ہانپ رہے ہیں!
کون پھلانگ سکا ہے اُس کو
میرے خیالوں کی وحشت نے
جو دیوار اٹھا رکھی ہے
جس کے اُدھر ہے، میرے ارادوں
کی اک عاجز دنیا
جس کے اندھے غار کے اندر
زخمی تدبیروں کے سائے رینگ رہے ہیں
جس کے آگے ہے اک اور ہی دنیا
شمسی نظاموں کے جلووں سے
روشن دنیا...تیری دنیا
جس کے تلے بے رُتبہ آنکھیں
...میری آنکھیں
نادِم، بے بس
تیرے کرم کی آس لگائے
کچلی پڑی ہیں!
آج کا مطلع
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستا بھول جاتا ہوں
جب اس کو یاد کرتا ہوں تو کتنا بھول جاتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں