وزیراعظم اور وزرا کی چوری سے ملک تباہ ہوتا ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم اور وزرا کی چوری سے ملک تباہ ہوتا ہے‘‘ جبکہ دیگر افراد کی چوری سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا بلکہ چوری کی رقم ان سے واپس بھی لی جا سکتی ہے کیونکہ بعض چوریاں غلط فہمی کی بنا پر بھی ہو جاتی ہیں، اس لیے ان سے درگزر کرنا چاہیے، نیز وہ اپنے کیے پر پچھتاتے بھی ہیں جبکہ وزیراعظم اور وزرا کی چوری واپس نہیں لی جا سکتی کیونکہ وہ ملک سے رفو چکر ہو جاتے ہیں اور جس میں حکومت کی اپنی سادگی بلکہ نا اہلی بھی شامل ہوتی ہے اور لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کی کوششیں صرف بلند بانگ دعووں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ آپ روز اسلام آباد میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت کا خاتمہ قوم پر فرض ہو چکا ہے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کا خاتمہ قوم پر فرض ہو چکا ہے‘‘ کیونکہ ہم اپنے حصے کا کام کر چکے ہیں اور حکومت کے پسینے چھڑوادیے ہیں اور اسے حواس باختہ کر دیا ہے، اور یہ وہ کار ہائے نمایاں ہیں جس کی اطلاع ہم اپنے بیانات کے ذریعے قوم کو دیتے رہتے ہیں؛ چنانچہ اصل اور بنیادی کام ہم نے سر انجام دے لیا ہے اس لیے حکومت کو ہٹانے کا جو باقی اور معمولی کام ہے وہ قوم کو آگے بڑھ کر خود کرنا چاہیے اور اس سے زیادہ کی تو ہم سے امید نہ رکھی جائے۔ آپ اگلے روز اندرونِ سندھ روانگی سے قبل قائد آباد میں ایک استقبالیہ کیمپ سے خطاب کر رہے تھے۔
ہم نے استعفوں سے انکار نہیں کیا: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''ہم نے استعفوں سے انکار نہیں کیا‘‘ کیونکہ سیاست میں انکار کے بجائے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے جو ہم بڑی خوبصورتی سے بروئے کار لا رہے ہیں اگرچہ پی ڈی ایم والے بھی اسے بخوبی سمجھتے ہیں لیکن وہ بھی پوری وضعداری کے ساتھ اسے برداشت کر رہے ہیں کیونکہ وہ بھی سیاست ہی کر رہے ہیں جبکہ ٹال مٹول اور وضعداری کا تعلق سیاست کے بنیادی اصولوں سے ہے، حالانکہ ٹال مٹول کا مطلب صاف انکار ہی ہو تا ہے اور ٹال مٹول کرنے والا یہ جانتا ہے کہ فریقِ ثانی بھی اس کا مطلب صاف سمجھ رہا ہے کیونکہ سیاست میں ناسمجھوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
مولانا فضل الرحمن کی غلط بیانی پر افسوس ہے: حافظ حسین احمد
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ''مولانا فضل الرحمن کی غلط بیانی پر افسوس ہے‘‘ جو انہوں نے حکومت گرانے کے سلسلے میں بڑے تواتر سے کی ہے۔ ان کی پیش گوئیاں سُن سُن کر ہمارے کان پک گئے ہیں اگرچہ کانوں کے کچے ہم پہلے بھی کبھی نہیں تھے اور اس طرح کی باتیں ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے اڑا دیتے تھے کیونکہ انسان کو دو کان اسی لیے عطا کیے گئے ہیں اور ہم سب کو کانوں کے استعمال کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
سیاست میں پیسہ لانے والے نواز شریف ہیں: فرخ حبیب
تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''سیاست میں پیسہ لانے والے نواز شریف ہیں‘‘ جبکہ سیاست سے پیسہ لے جانے والے بھی نواز شریف ہی ہیں، اگرچہ ایک دوسری پارٹی کے بزرگ بھی اس فن میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور اِن سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں لیکن اگر اِن سب کا اکٹھا حساب لگایا جائے تو یہ اُن کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں ۔ اس اعتبار سے سیاست کا پہلا مرحلہ اس میں پیسہ لانا اور دوسرا اس میں سے پیسہ واپس نکالنا ہے؛ اگرچہ ہم ابھی پہلے مرحلے کے فریقِ کار کی پیچیدگیوں ہی میں پھنسے ہوئے ہیں اور اکثر حضرات کو اس کی سمجھ ہی نہیں آ رہی اور جنہیں آ رہی ہے وہ دوسروں کو بتاتے نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
موجودہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے: رانا تنویر حسین
پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی سینئر رہنما اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئر مین رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''موجودہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے‘‘ اس لیے اس ناکام حکومت کو گرانے کے بجائے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے اور پی ڈی ایم بھی شاید اسی نتیجے پر پہنچی ہوئی ہے اور عین ممکن ہے کہ اپنی جدوجہد چھوڑ کر حکومت پر یہ ضرب کاری لگا ہی دے کیونکہ ہر محاذ پر ناکام حکومت کو گرانے کے لیے اتنا تردد کرنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے جبکہ حکومت خود بھی اس بات کو سمجھتی ہے اور اپنے دن پورے کر رہی ہے۔ آپ اگلے روز پریس کلب شیخوپورہ کے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور، اب بھارت سے صابرؔ کی یہ نظم:
کیا تم کو بھی؟
دن بھر کے سب کام نمٹ کر
تھکا تھکا سا بوجھل سورج
ساگر کی لہروں میں سونے آیا ہے
ساگرتٹ کی ریت پہ کتنے سارے لوگ
پائوں پسارے بیٹھے ہیں
میں بیٹھا ہوں
مجھ سے بس دو چار قدم پر تم بیٹھی ہو
گُم سُم، گُپ چُپ، کھوئی کھوئی
خسرو کی پہیلی لگتی ہو
سوچ رہا ہوں
میں تنہا ہوں، تم تنہا ہو
سورج ساگر کی لہروں میں کھو جائے گا
ساگر تٹ پر ہنستے منظر سو جائیں گے
کیا میں اور تم یونہی بیٹھے رہ جائیں گے
چار قدم کی دوری بھی کیا دُوری ہے
کیسی جھجک ہے اور کیسی مجبوری ہے
تم کیوں ایسے چونک پڑی ہو
میری جانب دیکھ رہی ہو
چہرے پر مسکان سجی ہے
کیا تم کو بھی ٹیلی پیتھی آتی ہے؟
آج کا مطلع
ہیں کس طرح کے بام و در تو دکھائو
کسی دن ہمیں اپنا گھر تو دکھائو