"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور افضال نوید

قیدیوں اور جیل ملازمین کی فلاح کے لیے
اقدامات کر رہے ہیں: فیاض الحسن چوہان
وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''قیدیوں اور جیل ملازمین کی فلاح کے لیے اقدامات کر رہے ہیں‘‘ اور چونکہ کم و بیش ساری اپوزیشن مستقبل قریب میں جیل میں ہوگی اس لیے ان کی فلاح ہم پر لازم ہوگی کیونکہ ہم اپوزیشن سمیت سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے بیرکوں کو کھلا اور ہوا دار کیا جا رہا ہے اور کھانوں میں دالوں کی ورائٹی بھی پیش کی جائے گی کیونکہ قیدی ہونے کے باوجود ہر روز ایک ہی طرح کی دال نہیں کھائی جا سکتی اور انہیں مزید ذائقے دار بنانے کے لیے دالوں کو مکس کر کے بھی پکایا جا سکے گا تا کہ قیدی انگلیاں ہی چاٹتے رہ جائیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم سے ملاقات کر رہے تھے۔
سیاست سیکھنے کے لیے ہماری شاگردی کرنا ہوگی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''سیاست سیکھنے کے لیے ہماری شاگردی کرنا ہوگی‘‘ جس کے لیے مناسب ٹیوشن فیس کے علاوہ گھر سے خاکسار کے لیے شیرینی بھی لانا ہوگی جو روح کو طراوت بخشنے کے علاوہ سیاست سیکھنے اور سکھانے میں بھی مددگار ہوتی ہے جبکہ سیاست کا پہلا سبق یہ ہے کہ اگر آپ رکن اسمبلی ہیں تو ہر حکومت کے ساتھ جڑے رہنا ہوگا‘ چاہے وہ آمرانہ حکومت ہی کیوں نہ ہو، جس کے بعد قدرت آپ پر مہربان ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ آپ کے اثاثے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے نظر آئیں کیونکہ سیاست میں داخل ہونے کا مطلب بھوکوں مرنا نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز حیدرآباد میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
موجودہ حکومت میں مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچا: سلیم مانڈوی والا
ڈپٹی چیئر مین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ ''موجودہ حکومت کے دور میں مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچا‘‘ بلکہ مسئلہ کشمیر سے بھی زیادہ خاکسار کو نقصان پہنچایا گیا اور میرے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی گئی اور میرے عہدے کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ احتساب والوں کے نزدیک عام اور خاص میں کوئی فرق ہی نہیں ہے جبکہ ہم جس مشقت سے اس عہدے تک پہنچے ہیں اور اس کے لیے جو صعوبتیں جھیلی ہیں اس کے پیشِ نظر چاہیے تھا کہ ہمارے ساتھ کچھ رعایت برتی جاتی اور زیادہ ممکن نہیں تھا تو کم از کم ہمارے عہدے کا ہی خیال رکھ لیا جاتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں دیگر پارٹی رہنمائوں کے ہمراہ ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
کپتان کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑے گا: شہباز گل
وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''کپتان کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑے گا‘‘ اور ان سے جن کی طرح چمٹ جائے گا جسے باہر نکالنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہو گا، اور بڑے سے بڑا عامل بھی اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گا بلکہ جو عامل اس کی کوشش کرے گا‘ عبرت ناک سزا کا شکار ہو گا، لہٰذا اس بارے کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے اور چونکہ اپوزیشن کا حق فائق ہے اس لیے وزیراعظم سب سے پہلے اپوزیشن ارکان کی مزاج پرسی کریں گے اور اس کے بعد مبینہ حکومتی افراد کی خبر لیں گے اور اس کے بارے کسی کو شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، آپ اگلے روز لاہور سے ٹویٹ کے ذریعے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عمران خان کو بھی پتا نہیں تھا وڈیو میں کون لوگ ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہ ہے کہ ''عمران خان کو بھی پتا نہیں تھا وڈیو میں کون لوگ ہیں‘‘ کیونکہ وہ کرپشن کے خاتمے میں اس قدر مگن ہیں کہ اس کے علاوہ انہیں کچھ اور پتا ہی نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور اس سے ان کی یکسوئی اور مقاصد کے حصول کے لیے فعالیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ ویسے بھی ان کے ہر کام کا بس اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود بھی ہر کام اندازے ہی سے کرتے ہیں اور اندازہ ایک ایسی چیز ہے کہ کبھی غلط بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
حکومت اپوزیشن کو چور کہے گی تو
اسمبلی میں کیا بات ہوگی: جاوید عباسی
نواز لیگ کے رہنما سینیٹر جاوید عباسی نے کہا ہے کہ ''حکومت اپوزیشن کو چور کہے گی تو اسمبلی میں کیا بات ہوگی‘‘ حالانکہ حکومت اپوزیشن کو اسمبلی کے باہر بھی یہ سب کہہ کر اپنے جذبات کی ترجمانی کر سکتی ہے جبکہ ویسے بھی کسی کو ایسا کہنا مناسب نہیں ہے اور اس سے باقاعدہ منع کیا گیا ہے اور حکومت کو ممنوعات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ چور کو چور کہنے سے وہ سادھ نہیں ہو جائے گا بلکہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی اس کی کوششوں کو بھی زک پہنچے گی۔ علاوہ ازیں اپوزیشن والے بھی اس ملک کے معزز شہری ہیں جن سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب افضال نوید کی یہ تازہ غزل:
نہیں کہ ساغر و مینا اٹھا کے لے جائوں
یہی بہت ہے کہ خود کو بچا کے لے جائوں
یہ کس کے وقت کا سازِ قدیم رکھا ہے
کہو تو اس پہ سے مٹی ہٹا کے لے جائوں
یہ کس خیال کی محفل میں دیپ جلتا ہے
کرم کرو تو کوئی لو لگا کے لے جائوں
کسی طلسم کا دروازہ کھولنا ہے مجھے
چراغِ اسم ہی کوئی جلا کے لے جائوں
وہ اُس کنارے پہ مجھ کو دکھائی دیتا ہے
میں اس کنارے پہ خود کو بہا لے کے لے جائوں
میرا ارادہ ہے ساحل پہ شب کو جانے کا
اگر کہو تو تمہیں بھی جگا کے لے جائوں
بگاڑ بیٹھے ہو جو کچھ درست کر دوں گا
اجاڑ بیٹھے ہو جس کو بسا کے لے جائوں
میں اپنی راہ بناتا ہوا گزرتا ہوں
نہیں کہ سارے جہاں کو بہا کے لے جائوں
نویدؔ غمزۂ آئندہ ہے تو اُس کو بھی
گزشتہ میں کہیں ہوگا، بلا کے لے جائوں
آج کا مقطع
دور ہے سبزہ گاہِ معنی‘ ظفرؔ
ابھی الفاظ کا یہ ریوڑ ہانک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں