وزیراعظم مافیا کے سربراہ‘ رخصت کرنے کا وقت آ گیا:مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم مافیا کے سربراہ‘ رخصت کرنے کا وقت آ گیا‘‘ اگرچہ یہ وقت کافی پہلے کا آیا ہوا ہے لیکن ہر بار آ کر کہیں واپس جلا جاتا ہے، شاید اس لیے کہتے ہیں کہ ؎
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں/ سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
لیکن جو بُرا وقت ہم پر آیا ہُوا ہے کہیں جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آپ نوشہرہ میں ایک جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے تمام
وسائل استعمال کریں گے: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے تمام وسائل استعمال کریں گے‘‘ فی الحال تو تمام وسائل اپوزیشن کا قلع قمع کرنے میں استعمال ہو رہے ہیں‘ اس کے بعد ہی بازیابی کی باری آئے گی، بشرطیکہ یہ وسائل اس کام میں ختم نہ ہو جائیں، کیونکہ وسائل کی مقدار پہلے ہی خاصی محدود ہے جبکہ اپوزیشن پر توجہ دینا ہماری ترجیح اول ہے کیونکہ ہم اپوزیشن سمیت سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہو کر ہی جمہوریت کو گاڑی کو چلایا جا سکتا ہے بھلے وہ ایک خیالی سی جمہوریت ہی کیوں نہ ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں گمشدہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کر رہے تھے۔
سینیٹ اور ضمنی الیکشن میں شیر گیدڑوں
کو بھگا دیں گے: عمران گورائیہ
نواز لیگ پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عمران گورائیہ نے کہا ہے کہ ''سینیٹ اور ضمنی الیکشن میں شیر گیدڑوں کو بھگا دیں گے‘‘ اگرچہ شیروں کا کام گیدڑوں کا صفایا کرنا ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ ذرا کاغذی قسم کے شیر ہیں اور امید ہے کہ ان کی کھڑکھڑاہٹ سے گیدڑ خود ہی بھاگ جائیں گے۔ اگرچہ مشیروں کا کام گیدڑوں کو مار کر اُن کی گیدڑ سنگھی نکالنا ہوتی ہے تا کہ شیروں کے خلاف استعمال نہ کی جا سکے، کیونکہ یہ گیدڑ اب تک ان شیروں کو گیدڑ سنگھی ہی کی مار دیتے آئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ گیدڑ سنگھیاں ایک جگہ پر جمع کروا رکھی ہیں جہاں سے وہ شیروں کے خلاف استعمال ہوتی ہیں۔ آپ اگلے روز اپنے دفتر میں لیگی کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ون مین شو نہیں، ٹیم ورک کرتا ہوں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ون مین شو نہیں، ٹیم ورک کرتا ہوں‘‘ کیونکہ سارا ورک تو ٹیم ہی کرتی ہے جو دراصل کام کر نہیں، بلکہ سیکھ رہی ہوتی ہے اور اس کی دیکھا دیکھی کچھ سبق مجھے بھی پڑھا دیے گئے ہیں جنہیں ہر وقت یاد کرتا رہتا ہوں، خاص طور پر شہر بھر کی صفائی ستھرائی اور امن و امان کے حوالے سے ٹریننگ حاصل کر چکا ہوں جس کی حسبِ معمول سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ دونوں معاملات قابو سے باہر ہو رہے ہیں اور مجھے اس پر اب غصہ آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارکان اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی‘‘ اور میں خود اس کا چشم دید گواہ ہوں کیونکہ کچھ روز پہلے میں نے اسے منہ دکھانے کو کہا تھا تو اس کا جواب یہ تھا کہ میرا منہ واقعی اس قابل نہیں رہا، کہ کسی کو دکھایا جائے، خاص طور پر مجھے تو منہ دکھانے کی اس میں ہمت ہی نہیں تھی کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ میں اس کا منہ دیکھنے کے بجائے تقریر شروع کر دوں گا، حالانکہ میں خود بھی روزانہ تقریر کرنے کی وجہ سے منہ دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ اگلے روز کراچی کے ذمہ داران سے گفتگو کر رہے تھے۔
گمنام گائوں کا آخری مزار
یہ ہمارے دوست اور ممتاز کالم نگار رئوف کلاسرا کی وہ کہانیاں ہیں جو بقول ان کے‘ عام لوگوں کے بارے میں لکھی گئی ہیں؛ اگرچہ ان میں بعض خاص لوگوں کی کہانیاں بھی شامل ہیں اور یقینا یہ وہ تحریریں ہیں جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں۔ کتاب کا انتساب اس طرح سے ہے: میرے گائوں جیسل کلاسرا کے کمہار چاچا میرو کے نام، چاچامیرو ہی ''گمنام گائوں کا آخری مزار‘‘ کا ہیرو ہے۔ زائد از ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب معروف اشاعتی ادارے بک کارنر نے چھاپی ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور مختصر خود نوشت ہے جس میں کتاب کے مندرجات کے بارے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ اس کا کوئی دیباچہ نہیں ہے۔ صرف پیش لفظ پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کی سرگزشت بھی ہے اور نہایت مزیدار فکشن بھی، اگرچہ اس کے سب کردار اصلی ہیں۔ آپ اسے ایک سانس میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں اس کی اشاعت پر ادارے کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
اور‘ اب پشاور سے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق وردگ کی غزل:
وقت کو خاص گزر گاہ سمجھنے والے
آج موجود نہیں آہ... سمجھنے والے
دل میں تعبیر کی خواہش ہی نہیں رکھتے ہیں
ہم ترے خواب کو درگاہ سمجھنے والے
ان زمینوں کو سمجھنے سے ابھی قاصر ہیں
آسمانوں کو گزر گاہ سمجھنے والے
زندگی تیرے بھٹکنے کو سمجھ لیتے ہیں
موت کی سمت گئی راہ سمجھنے والے
آج معزول ہوں تو پاس نہیں آتے ہیں
اک زمانے میں مجھے شاہ سمجھنے والے
مذہبِ عشق میں زندیق بنیں گے آخر
جسم کو صرف پنہ گاہ سمجھنے والے
وہ پرندے ہوں کہ تارے کہ سمندرسائیں
ہم تو فطرت کو ہیں درگاہ سمجھنے والے
دُکھ کے موسم میں سمجھ جائیں گے ان چہروں کو
شہر میں سب کو بہی خواہ سمجھنے والے
جھوٹ کو سچ کی جگہ آگے بڑھا دیتے ہیں
سچ کے ہر روپ کو افواہ سمجھنے والے
ہو گیا خاص مجھے خاص سمجھنے والا
ہو گئے گم مجھے گمراہ سمجھنے والے
اب اندھیروں میں بھٹکتے ہیں سرِ شام کہیں
روشنی کو کبھی ہمراہ سمجھنے والے
ہجر کے راز سمجھنے سے کہاں واقف ہیں
وصل کو عشق کی تنخواہ سمجھنے والے
آج کا مطلع
اب کے اُس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
پائوں پر پائوں جو رکھنا تو دبا بھی دینا