"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، اور اس ہفتے کی غزل

اڑھائی سال میں 20 ارب ڈالر قرضہ
واپسی ایک کرشمہ ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''اڑھائی سال میں 20 ارب ڈالر قرضہ واپسی ایک کرشمہ ہے‘‘ جس نے یہ مقولہ غلط ثابت کر دیا ہے کہ اب کرشمے رونما ہونا بند ہو گئے ہیں اور میری روحانی طاقت کو تسلیم نہ کرنے والوں کو اب اپنی رائے تبدیل کر لینی چاہیے کہ یہ 20 ارب ڈالر تو ایک عمل کی مار تھے جبکہ دیگر ملکی مسائل کے حل کیلئے بھی میں نے چلّہ کشی شروع کر دی ہے، قوم جس کے نتائج کا بے صبری سے انتظار کرے۔ آپ اگلے روز شہزاد وسیم، شاہ فرمان اور احمد ولی مسعود سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت کا خاتمہ توقع سے قبل ہی ہو جائے گا: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت کا خاتمہ توقع سے قبل ہی ہو جائے گا‘‘ اور میرے جیسے شخص کا کہا کبھی رائیگاں نہیں جاتا کیونکہ اب ایسے صاف ستھرے کردار کے حامل دستیاب ہی کہاں ہیں اور یہی ایک صادق، سچے، دلیر آدمی کی نشانی ہے اور یہی خاکسار کی زندگی بھر کی کمائی بھی ہے اور چونکہ میں نے ایسا کہہ دیا ہے، اس لیے حکومت کو اپنا بوریا بستر باندھ لینا چاہیے، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ آپ اگلے روز سینیٹر الیکٹ سعدیہ عباسی سے فون پر گفتگو کر رہے تھے۔
عوامی مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کروں گا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عوامی مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کروں گا‘‘ جبکہ پہلے تو ادھوری کوششیں ہی ہو رہی تھیں، جس کی وجہ سے آدھا مسئلہ حل ہو جاتا اور آدھا بیج میں ہی رہ جاتا تھا، چنانچہ قوم اب دعا کرے کہ پوری کوششیں پورے طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوں کیونکہ حکومت صرف کوشش ہی کر سکتی ہے اور اسے ہی غنیمت سمجھنا چاہیے کہ ہم نے اب پوری کوششیں بھی شروع کر دی ہیں، کیونکہ پہلے تو محض ادھوری کوششوں پر ہی گزر اوقات کی جا رہی تھی اور اب یہ مساعیٔ جمیلہ بطورِ خاص پیش کی جا رہی ہیں۔ آپ اگلے روز فیصل نیازی اور سیف اللہ نیازی سے ملاقات کر رہے تھے۔
جہانگیر ترین کس کے کہنے پر متحرک
ہوئے، پتا لگانا ہوگا: طلال چودھری
نواز لیگ کے رہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ ''جہانگیر ترین کس کے کہنے پر متحرک ہوئے، پتا لگانا ہوگا‘‘ کیونکہ اگر میری تنظیم سازی کرنے کی اتنی تحقیق ہو سکتی ہے اور اُس کا پتا لگایا جا سکتا ہے تو اس معاملے کا کیوں نہیں، اگرچہ میں نے جو بیانات اس پر دیے وہ ایک دوسرے کے برعکس تھے جس کی وجہ میری زبان کی لڑکھڑاہٹ تھی اور اس لڑکھڑاہٹ کی وجہ بھی سمجھ میں آ رہی تھی، نیز میرے بازو کی ہڈی ٹوٹنے کا معاملہ بھی حقیقت ہونے کے باوجود مشکوک بنا دیا گیا تھا، تاہم جہانگیر ترین کا متحرک ہونا وزیراعظم کی ہدایات کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے بظاہر اس کا پتا لگانے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
ہمارے ساتھ ملنے کے لیے ن لیگ
والوں کی لائنیں لگی ہیں: ہمایوں اختر
تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر نے کہا ہے کہ ''ہمارے ساتھ ملنے کے لیے ن لیگ والوں کی لائنیں لگی ہیں‘‘ لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ لائنیں ایک ہی جگہ پر کھڑی ہیں اور ہلنے جلنے کا نام نہیں لے رہیں حالانکہ ہم پھولوں کے ہار لیے اپنے دروازے پر ان کا انتظار کر رہے ہیں، اور اگر وہ مذاق کر رہے ہیں تو یہ نہایت نا مناسب بات ہے اور اگر وہ سردی وغیرہ کی وجہ سے ایک جگہ پر منجمد ہو گئے ہیں تو ہم واٹرشیلنگ کے ذریعے انہیں گرمائش پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ جو انتظام ہم نے ان کے لانگ مارچ کے لیے کر رکھا ہے‘ وہاں ٹھنڈے کے بجائے گرم پانی کا بھی انتظام کیا جا سکتا ہے، ہاتھ کنگن کو آر سی کیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
جو عوام کو قبول ہے اسے اور کسی
قبولیت کی ضرورت نہیں: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''جو عوام کو قبول ہے اسے اور کسی قبولیت کی ضرورت نہیں‘‘ جیسا کہ والد صاحب عوام کو قبول ہیں لیکن فی الحال انہیں عوام قبول نہیں ہیں اور اسی لیے وہ واپس نہیں آ رہے اور جب تک عوام انہیں قبول نہیں ہوجاتے‘ وہ واپس نہیں آئیں گے اور شاید عوام خود بھی نہیں چاہتے کہ وہ واپس آئیں کیونکہ وہ اب تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ہی واپسی کا سفر اختیار کریں گے جس میں اب کچھ زیادہ دیر بھی نہیں ہے کیونکہ یہ حکومت کسی وقت بھی گھر جا سکتی ہے، جس کے بعد واحد آپشن ہم ہی ہوں گے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
وہ اپنے کام میں مصروف، یہ لگائو ہے کیا
یہ احتیاط ہے کیسی، یہ رکھ رکھائو ہے کیا
جو آ رہا ہے کہیں، اور جا رہا ہے کہیں
یہ کس قماش کا پانی ہے، یہ بہائو ہے کیا
یہاں پہ آئے تھے ہم دل کو مفت میں دینے
ہمارے سامنے لیکن یہ بھائو تائو ہے کیا
کنارہ ہی کہیں گم ہوتا جا رہا ہے تمام
کبھی بھی دیکھا نہیں تھا، سو یہ کٹائو ہے کیا
جہاں سے آنے کی دعوت نہیں ملی ہے کوئی
وہاں بھی جانے کا دل کو یہ اتنا چائو ہے کیا
محبت آن پڑی سر پہ جب تو آنکھ کھلی
یہ سوچتے‘ کہیں اس سے کوئی بچائو ہے کیا
کچھ اس پہ مر کے ہی اس زندگی سے بچ نکلیں
ہمارے پاس بھی یہ آخری ہی دائو ہے کیا
رکے نہیں تھے کبھی یوں تلاش میں اس کی
جو تھک کے بیٹھ گئے ہیں، یہی پڑائو ہے کیا
جو سرد مہری سے اس کی ٹھٹھر گیا ہوں، ظفرؔ
تو، ساتھ جل بھی رہا ہوں، سو، یہ الائو ہے کیا 
آج کا مطلع
وصل کا رنگ جمایا نہیں جاتا مجھ سے
یہ وہ کھانا ہے جو کھایا نہیں جاتا مجھ سے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں