"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، گمشدہ ستارا، اور ضمیر طالب

سینیٹ کے لیے نااہل قرار، اندھیر نگری
والوں کو بے نقاب کروں گا: پرویز رشید
سابق وفاقی وزیر اور ن لیگ کے مرکزی رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''سینیٹ کے لیے نااہل قرار، اندھیر نگری والوں کو بے نقاب کروں گا‘‘ کیونکہ اگر تحریک انصاف اپنے ایک امیدوار کی فیس بھر سکتی ہے تو میری جماعت والے کب سے دیوالیہ ہو گئے ہیں جو میری فیس نہیں بھر سکتے؟ جبکہ یہ دونوں ہاتھوں سے مال بنا رہے تھے تومجھے یہ کہہ کر موقع ہی نہیں دیا کہ آپ جیسوں ہی کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں لیکن پتا اس وقت چلا جب لندن میں فلیٹ خرید لیے گئے، نیز ان لوگوں کے پاس لندن سے سرجریاں کروانے کے لیے پیسے ہیں لیکن میرے لیے نہیں۔ آپ اگلے روز ٹربیونل کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سرجری چھوٹی ہو یا بڑی، مریم کو جانے نہیں دینگے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''سرجری چھوٹی ہو یا بڑی، مریم کو جانے نہیں دیں گے‘‘ اور یہ بھی ایک سیاسی بیان ہی ہے ورنہ ہم تو چاہتے ہیں کہ مریم کل کی جاتیں آج چلی جائیں اور ان سے ہماری جان خلاصی ہو جس طرح ان کے والد صاحب سے ہو چکی ہے اور جن کی واپسی کے لیے ہماری کوششیں بھی بس ایک دکھاوا ہی سمجھیں، اسی طرح ہم مریم کی واپسی کے لیے بھی کوششیں کرتے رہیں گے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پرویز رشید جمہوریت کی ایک روشن علامت کا نام : مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''پرویز رشید جمہوریت کی ایک روشن علامت کا نام ہے‘‘ اور وہ سینیٹ سے باہر رہ کر زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہیں؛ اگرچہ ہم ان کی فیس بھرنا چاہتے تھے، لیکن پی ڈی ایم سربراہ نے تحریک کے لیے چندہ وصول کر کے ہمیں واقعتاً مفلوک الحال بنا دیا ہے، اور لانگ مارچ اور دھرنے کے لیے مزید کا تقاضا کیا جا رہا ہے جسے ہماری شامتِ اعمال ہی کہا جا سکتا ہے اور پرویز رشید صاحب کو اس معاملے کا خوب اچھی طرح سے علم ہے۔ آپ اگلے روز فیصلہ سننے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
متنازع پولنگ سٹیشنز پر پہلے بھی پی ٹی آئی ہی جیتی : فردوس
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''متنازع پولنگ سٹیشنز پر پہلے بھی پی ٹی آئی ہی جیتی تھی‘‘ اس لیے اب ہم وہاں سے کیسے ہار سکتے تھے، اس سازش کا وقت پر پتا چل گیا اور ہم نے مطلوبہ بندوبست بھی کر لیا تھا جبکہ پولنگ آفیسرز ویسے بھی کافی تھکے ہوئے تھے اور انہیں آرام کی ضرورت تھی جس کا اہتمام محض جذبۂ انسانی کی بنیاد پر کیا گیا اور اس غرض سے انہیں گھر جانے کی سہولت بھی مہیا کی گئی بصورتِ دیگر ان کی صحت کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔
معلوم کیا جائے ڈسکہ میں کھیل کے پیچھے کون تھا: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''معلوم کیا جائے ڈسکہ میں کھیل کے پیچھے کون تھا‘‘ کیونکہ ہمارے زمانے میں بھی ہر کھیل کے پیچھے کوئی نہ کوئی ضرور ہوا کرتا تھا جو اکثر اتفاق سے ہم خود ہی ہوتے تھے، کیونکہ ہم قدرتی طور پر سپورٹس مین واقع ہوئے ہیں اور فن پہلوانی سے لے کر کرکٹ تک‘ ہر جگہ ہم نے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں جبکہ کرکٹ میں امپائر ہمارا اپنا ہی ہوا کرتا تھا، نیز سیاست کو بھی ہم نے ایک کھیل ہی کی طرح کھیلا تھا جس کا امپائر بھی ہمارا ساتھی ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں اس نے غیر جانبداری شروع کر دی اور ہمیں ہروا دیا۔ آپ اگلے روز لندن سے الیکشن کمیشن سے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
گم شدہ ستارا
یہ شبیر شاہد کی نظم و نثر کا مجموعہ ہے۔ جسے ممتاز شاعر،نقاد اور ہمارے دوست ڈاکٹر ضیاء الحسن نے مرتب کیا ہے اور جسے عکس پبلی کیشنز نے چھاپا ہے۔ اس کا فاضلانہ دیباچہ ڈاکٹر صاحب نے خود تحریر کیا ہے، جبکہ پسِ سرورق مندرجات کے مطابق ''شبیر شاہد کی شخصیت افسانوی حیثیت کی حامل ہے۔ ان کا اوریئنٹل کالج کازمانہ بے پناہ شعری امکانات، اعلیٰ تخلیقی تجربہ اور پھر پراسرار طور پر غائب ہو جانا‘ اپنے اندر داستانوی کشش رکھتا ہے...‘‘۔ کتاب میں شامل تنقید،نظمیں اور مکتوبات کچھ زیادہ متاثر نہیں کرتے؛ البتہ ان کی غزل اپنے اندر امکانات رکھتی تھی جسے بروئے کار لانے کے بجائے وہ کہیں غائب ہو گئے یا غائب کر دیے گئے۔ نمونۂ کلام:
دُور دیارِ چشم میں اک در باز کہیں
اوٹ میں اس کی ایک نگاہِ ناز کہیں
دہشت ناک سمندر کی پھنکاروں میں
ڈوب گئی ہے ساحل کی آواز کہیں
اور، اب آخر میں ضمیر طالب کی تازہ غزل:
تخت خانہ پُری طرح سے ہے
بادشہ بے بسی طرح سے ہے
ہار بھی اک فریب ہے یہاں، اور
جیت بھی دھاندلی طرح سے ہے
تیرے حق میں اٹھائے رکھا ہوا
ہاتھ اب کانپتی طرح سے ہے
اور تو ٹھیک ٹھاک ہے سب کچھ
نبض بس ڈوبتی طرح سے ہے
ساری باتیں وہی پرانی ہیں
لہجہ تھوڑا نئی طرح سے ہے
اب کے انجام جانے کیا ہوگا
ابتدا آخری طرح سے ہے
یہ غنیمت ہے کوئی کوئی تو
آدمی آدمی طرح سے ہے
کون خدمت کرے ہماری ضمیرؔ
ہر کوئی افسری طرح سے ہے
آج کا مطلع
کس جنگل میں کھوئے
اوئے ہوئے ہوئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں