"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن ، گراں اور غزل

حکمت عملی سے سینیٹرز کو بلا مقابلہ منتخب کر ادیا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''حکمت عملی سے سینیٹرز کو بلا مقابلہ منتخب کرا دیا‘‘ اگرچہ ڈسکہ میں حکمت عملی سے کچھ زیادہ ہی کام لیا گیا تھا اسی وجہ سے وہ ناکام رہی، کیونکہ حکمت عملی بھی متوسط درجے کی ہونی چاہیے جبکہ حکم بھی میانہ روی ہی کا ہے، بیشک ان پولنگ افسران کے خلاف کارروائی بھی کی جا رہی ہے لیکن انہوں نے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا دیا اور اب انہیں آئندہ کسی الیکشن میں ذمہ داریاں سنبھالنے سے روک دیا گیا ہے، انہیں اب کسی مزید نیک نامی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور ہی سینیٹ کی باقی نشستوں کے انتخاب کے لیے ہدایات جاری کر رہے تھے۔
آشیانہ ریفرنس کا ایک ایک لفظ فراڈ ہے: شہباز شریف
نواز لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''آشیانہ ریفرنس کا ایک ایک لفظ فراڈ ہے‘‘ جبکہ یہ سکیم بجائے خود ایک بہت بڑا فراڈ تھی، اس لیے فراڈ پر ایک اور فراڈ کوئی اچھی بات نہیں؛ تاہم اچھی اور بری باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں مثلاً اچھی بات ایک تو یہ ہے کہ حمزہ شہباز شریف کی ضمانت ہو گئی ہے، لیکن ساتھ ہی بری بات یہ بھی ہے کہ مریم کو اس سے خوشی نہیں ہوئی کیونکہ حمزہ کے اندر ہونے سے مریم کو کافی ریلیف تھا اور وہ بلا شرکت غیرے لیڈر بنی ہوئی تھیں، لیکن اب حمزہ ان کی جگہ لے لے گا کیونکہ باری بھی اسی کی ہے اور مریم کو اب آرام کی بھی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''حکومت کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے‘‘ بلکہ اس میں ہم بھی مٹر گشت کرتے نظر آئیں گے کیونکہ ہمارا بیانیہ کامیاب اور حکومت کا کرپشن مخالف بیانیہ ناکام ہو چکا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ ایک روٹین کا معاملہ ہے کیونکہ ہم نے کرپشن کو ملک کی رگ رگ میں اس طرح رواں دواں کر دیا تھا کہ کرپشن اور ہم لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ آسانی سے تسلیم نہیں کریں گے: عثمان ڈار
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے کہا ہے کہ ''الیکشن کمیشن کا فیصلہ آسانی سے تسلیم نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ اپنے خلاف آیا ہوا کوئی بھی فیصلہ آسانی سے تسلیم نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر اگر وہاں کافی محنت کی گئی ہو جبکہ اب تک تو یہی سنتے آئے ہیں کہ کسی کی محنت رائیگاں نہیں جاتی اور اس وجہ سے محاوروں پر سے ہمارا اعتماد ہی اُٹھ گیا ہے؛ چنانچہ جونہی موقع ملتا ہے ہم سابق محاورے منسوخ کر کے نئے محاورے قائم کرنے کی کوشش کریں گے تا کہ آئندہ کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے جبکہ ہم پہلے ہی کافی پریشان بیٹھے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
مقتدرہ سیاست سے بیدخل ہو تو نیک شگون : احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ مقتدرہ سیاست سے بیدخل ہو جائے تو نیک شگون ہو گا‘‘ اسی طرح اگر نیب بھی سیاست سے بیدخل ہو جائے تو مزید نیک شگون ہوگا جس نے ہم معصوموں کا دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر رکھی ہے کیونکہ اگر ہمیں پتا ہوتا کہ اس نے ایک دم یوں آنکھیں پھیر لینی ہیں تو ہم کچھ احتیاط کر لیتے لیکن ہمارے لیے اپنی قیادت کے نقشِ قدم پر چلنا بھی ضروری تھا جو خود بھی ایک طرح سے نشانِ عبرت بن چکی ہے اور ابھی مزید کئی مراحل اس نے عبور کرنا ہیں، لیکن ہم نے حوصلہ نہیں ہارا کہ بندوں پر آزمائش کے اوقات آتے رہتے ہیں اور گزر بھی جاتے ہیں اور ہمارے قائد نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ وقت گزر جائے گا اگرچہ ان کا اپنا وقت گزرتا نظر نہیں آتا۔ آپ اگلے روز مریم اورنگزیب اور دیگران کے ذریعے میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
گراں
یہ طاہرہ اقبال کا ناول ہے جسے دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ دیباچے الطاف فاطمہ اور اقبال نظر نے تحریر کیے ہیں۔ انتساب اس طرح سے ہے: ''اس انسان کے نام جس نے مجھے طاہرہ جبیں سے طاہرہ اقبال بنایا، جس کی بخشی ہوئی محبتوں، آسائشوں اور عزتوں کی خوش رنگ بارشیں مجھے سدا مہکاتی اور سنوارتی رہیں۔ میرے اقبال صاحب! میری روح کی تنہا ویرانی پل پل ایک بین بنتی ہے۔۔۔۔ ہُن کدے نہ مُڑ سو، کسے گڈی توں نہ لہسو‘‘ پسِ سرورق مصنفہ کی تصویر اور دیگر تصانیف کی فہرست درج ہے۔ نامور فکشن رائٹر الطاف فاطمہ نے انہیں انشا کی رانی کہا ہے جو سو فیصد درست ہے۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا دلکش طرز بیاں ہے جو رواں اور انتہائی دلچسپ ہے۔ وہ اس کتاب کی اشاعت پر یقینا مبارکباد کی مستحق ہیں!
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل :
نہ جانے ذہن میں بیٹھے بٹھائے آئی ہے کیا
کہ بات اصل میں کیا تھی، اُسے بتائی ہے کیا
کریں بھی کیا کہ اگر ہم سے اس محبت میں
بھلائی ہو نہیں سکتی تو پھر برائی ہے کیا
اگر نہیں تھا کوئی ربط و ضبط ہی رکھنا
تو درمیاں کوئی دیوار بھی اٹھائی ہے کیا
اگر نہیں تھا اسے دیکھنا بھی رہ رہ کر
تو سامنے سے وہ تصویر بھی ہٹائی ہے کیا
کچھ ایسا عشق تھا یہ جس نے سوچنے نہ دیا
کہ میرا خرچ ہے کیا اور میری کمائی ہے کیا
اگر کسی بھی طرح اس کا انتظار نہیں
تو صبح ہونے تلک شمع یہ بجھائی ہے کیا
مآل کار تو دونوں سے ہاتھ اٹھا گئے ہم
ہمارے سامنے یہ وصل کیا، جدائی ہے کیا
نہ اس نے گھر سے نکالا نہ کی پذیرائی
سمجھ میں ہی نہیں آتی کہ یہ رسائی ہے کیا
چٹائی خواب کی پھرتے ہیں جو لیے ہم ساتھ
یہ فرشِ دل پہ کسی کے لیے بچھائی ہے کیا
آج کا مقطع
زردیاں ہیں مرے چہرے پہ ظفر اُس گھر کی
اُس نے آخر مجھے رنگِ در و دیوار دیا

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں