"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن، ’بے سبب‘ ادریس بابر کی غزل ’’پارٹی‘‘

ہو سکتا ہے کہ لانگ مارچ کی ضرورت نہ پڑے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہو سکتا ہے کہ لانگ مارچ کی ضرورت ہی نہ پڑے‘‘ کیونکہ ہم اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ صاف نظر بھی آ رہا ہو کہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلنا تو پھر بھی اس بے مقصد کام کو جاری رکھیں، اوپر سے لانگ مارچ کے نام پر چندے وصول کر کر کے ہمارا دیوالیہ نکال دیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم سے کسی بات کا بدلہ لیا جا رہا ہے، شاید اس کا کہ سینیٹ ٹکٹ نہیں دیے گئے حالانکہ ہمارے اپنے ارکان پورے نہیں ہو رہے جبکہ ان کا سلوک بھی ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے۔ آپ اگلے روز حمزہشہباز کی رہائی کے بعد خطاب کر رہی تھیں۔
حمزہ ضمانت پر ہیں، بیان اس طرح دے
رہے ہیں جیسے بری ہو گئے ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''حمزہ ضمانت پر ہیں، بیان اس طرح دے رہے ہیں جیسے بری ہو گئے ہیں‘‘ اور یہ رہنما سزا یاب ہونے کے بعد بھی ایسے ہی بیان دیتے ہیں کہ ہم عدالت سے سرخرو ہوئے ہیں جیسا کہ ان کے قائد نے نااہل قرار پانے کے بعد کہا تھا کہ ہم عدالت سے سرخرو ہوئے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سزا یاب ہونے کے بعد مٹھائیاں بھی تقسیم کرنا شروع کر دیں اور اس کا بھی جشن منانے کو تیار ہو جائیں حالانکہ ا نہیں پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ان کی پارٹی کے اپنے لوگوں نے ان کی دال گلنے نہیں دینی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومتی ارکان رابطے میں ہیں‘ ٹف ٹائم دیں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومتی ارکان کے ہم سے رابطے ہیں، ٹف ٹائم دیں گے‘‘ تاہم، ان کا اعتبار ہرگز نہیں ہے کیونکہ وہ بیوقوف ہرگز نہیں اور ہماری حمایت کے وقت بھی اپنی نا تجربہ کاری ثابت کر دیں گے، اس لیے ہمیں زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے، اور اس بے اطمینانی کے علاوہ کیسز کی تلوار بھی بدستور ہمارے سر پر لٹک رہی ہے کہ کہیں دوبارہ کارروائی شروع نہ کر دی جائے، اگرچہ کافی حد تک اس کا بندوبست کر دیا گیا ہے لیکن جعلی اکائونٹس کا معاملہ پھر سر اٹھا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز کوہاٹ میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
مریم خود کو لیڈر اور حمزہ کو کارکن سمجھتی ہیں: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''مریم خود کو لیڈر اور حمزہ کو کارکن سمجھتی ہیں‘‘ اس پر ہمیں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے کے بجائے معاملے کو ان پر چھوڑ دینا چاہیے اور اصل میں تو اس کا نوٹس خود شہباز شریف کو لینا چاہیے کہ حمزہ کی انفرادیت کو وہ کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں یا وہ اسی ڈگر پر چلنے ہی میں اپنی عافیت سمجھیں گے، نیز کچھ دنوں میں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون کیا رویہ اختیار کرتا ہے، لوگ اپنا سیاسی حق لینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، یا پیچھے چلتے ہیں، یہ بھی امکان ہے کہ حمزہ اپنے والد صاحب کی دی ہوئی لائن ہی اختیار کریں گے۔ آپ اگلے روز حیدرآباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
ترقی کا سفر دوبارہ شروع کرنے کے لیے
نواز شریف کو آنا اور عمران کو جانا ہوگا: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کے پارلیمانی لیڈر حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''ترقی کا سفر دوبارہ شروع کرنے کے لیے نواز شریف کو آنا اور عمران کو جانا ہوگا‘‘ کیونکہ جب تک تایا جان واپس آ کر اندر نہیں ہوتے، پارٹی کے بیانیے سے ہوا نہیں نکل سکتی اور میری غیر حاضری میں میرے سارے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں جبکہ میرے والد صاحب کو بھی سیاسی منظر نامے سے پیچھے ہٹا دیا گیاہے۔ والد صاحب تو شاید وضع داری میں خاموش رہیں لیکن میں اپنا سیاسی کیریئر دائو پر نہیں لگا سکتا اور ایسا لگتا ہے کہ زود یا بدیر مجھے اپنا آپ منوانا ہی پڑے گا کیونکہ کوئی بھی آدمی سیاسی موت مرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز کوٹ لکھپت جیل سے رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بے سبب
یہ فوزیہ شیخ کا مجموعۂ غزل ہے جسے غلام طاہر پبلی کیشنز ملتان نے شائع کیا ہے۔ مقدمہ کومل جوئیہ کا تحریر کر دیا ہے جبکہ اندرونِ سرورق مقصود وفا اور اظہر فراغ کی توصیفی آراء درج ہیں۔ ابتدا اس شعر سے کی گئی ہے؎
اس کی مٹی سے محبت کی مہک آتی ہے
قبر بابا کی جو دیکھی تو لپٹ کر روئی
انتساب اپنے استادِ محترم اشرف یوسفی اور اپنی پیاری بیٹی فاطمہ شکیل کے نام ہے۔ پس سرورق شاعرہ کی تصویر ہے اور تین منتخب اشعار۔ ان کے اشعار میں تازگی اور تاثیر دونوں موجود ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ نمونۂ کلام کے طور پر چند شعر:
نیکی، حسرت اور لاچاری ڈوب گئی
اس دریا میں لاش ہماری ڈوب گئی
دریا سے وہ اوک میں پانی بھر لایا
میں حیرت سے پیاس کی ماری ڈوب گئی
یہ بھی سچ ہے ہاتھ تو اس نے پکڑ لیا
یہ بھی سچ ہے تب تک ساری ڈوب گئی
اور، اب آخر میں ادریس بابر کی غزل ''پارٹی‘‘:
چلے آئو کہ جاری پارٹی ہے
یہ ہم ہیں، یہ ہماری پارٹی ہے
وہ جن کا دن مشقت ہے لگاتار
وہ جن کی رات ساری پارٹی ہے
تو خالی گیٹ کریش ہی ہوئے ہیں ہم
بھری دنیا تمہاری پارٹی ہے
کسی سے ہمکناری پارٹی ہے
لبِ دریا ہماری پارٹی ہے
سبھی جنت میں گھسنے پر تلے ہیں
وہاں نوری... کہ ناری پارٹی ہے
کبھی مل آئیں ٹائم لے کے دل سے
مناسب کاروباری پارٹی ہے
تو شیشہ ٹوٹ کر ثابت کرے کیا
کہ وہ پتھر سے بھاری پارٹی ہے
ستارے اس کی آنکھوں سے لڑیں گے
یہی تو بے شماری پارٹی ہے
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ ہم کیا‘ ہماری شاعری کیا
ابھی تو ہاتھ سیدھے کر رہے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں