"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ابرار احمد

اپوزیشن والے بھاگ کیوں رہے، اتنی
تیزی دکھائی کہ جوتے بھی نہ پہنے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن والے بھاگ کیوں رہے، اتنی تیزی دکھائی کہ جوتے بھی نہ پہنے‘‘ جبکہ ننگے پائوں بھاگنے سے پائوں زخمی بھی ہو سکتے ہیں، اور کوئی نہ کوئی کانٹا تو ضروری چبھ سکتا ہے حالانکہ اگر انہیں بھاگنا ہی تھا تو اس کی پوری تیاری کرتے ہوئے جا گرز کا ایک ایک جوڑا اپنے لیے خریدلیتے، ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس جا گر خریدنے کے لیے پیسے ہی نہ بچے ہوں کیونکہ مبینہ طور پر ایک زرِ کثیر تو وہ سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کرانے کے لیے ہی خرچ کر چکے تھے،ثابت ہوا کہ فضول خرچی بہت بُری چیز ہے، آدمی کو ہمیشہ کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران 16 ارکان کو نکالیں، پھر اعتماد کا ووٹ لیں: محمد زبیر
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''عمران 16 ارکان کو نکالیں، پھر اعتماد کا ووٹ لیں‘‘ اور اگر انہیں معلوم نہ ہو کہ وہ 16 ارکان کون کون سے ہیں تو سارے ارکان ہی کو نکال دیں جن میں وہ 16 بھی نکل جائیں گے کیونکہ اگر ایک مچھلی سارے جل کو گنداکر سکتی ہے تو 16 ارکان کیا کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے اگر پانی کو خراب ہونے سے بچانا ہے تو ان ارکان سے پانی کو صاف کرنا ضروری ہو گیا ہے جبکہ ویسے بھی ہمارے پاس وہی صاف پانی رہ گیا ہے جو میاں شہباز شریف کی صاف پانی کی کمپنیوں نے تیار کر کے دیا تھا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
تحریک انصاف کی طرف سے اداروں
کو متنازعہ بنانا ثابت ہو گیا: مریم نواز
مستقل نا اہل ‘ سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف کی طرف سے اداروں کو متنازع بنانا ثابت ہو گیا‘‘ اور اس طرح اس نے والد صاحب کی اداروں کو غیر متنازع بنانے کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا اور جو حب الوطنی کے سراسر خلاف ہے جبکہ یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف کو ملکی ترقی مطلوب نہیں ہے جو اس تیز رفتار ملکی ترقی کے بالکل برعکس ہے جو اپنے جملہ لوازمات کے ساتھ حاصل کر کے والد صاحب نے ساری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ آپ اگلے روز سکھر میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
مضبوط اتحاد نے حکومتی صفوں میں دراڑیں ڈال دیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''مضبوط اتحاد نے حکومتی صفوں میں دراڑیں ڈال دیں‘‘ اور یہ وہی دراڑیں جو ہمارے بعض اقدامات کی وجہ سے پی ڈی ایم کی صفوں میں پڑ گئی تھیں لیکن ہم انہیں بہلانے پھسلانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اب یہی دراڑیں حکومتی صفوں میں نظر آ رہی ہیں لیکن آئندہ انتخابات میں نواز لیگ کے ساتھ ہمارا اینٹ کھڑکا ضرور لگے کیونکہ وہ اپنی باری لے چکے ہیں، اور اب ہماری باری ہے۔ بصورت دیگر باریوں کے فارمولے کا احیا نہیں ہو سکے گا اور مخاصمت جاری رہے گی ۔ آپ اگلے روزاپوزیشن رہنمائوں سے فون پر گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم عوام کے لیے امید کی کرن،
اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے: یاسمین راشد
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عوام کے لیے امید کی کرن ہیں، اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے‘‘ اگرچہ اندھیرا اتنا ہے کہ امید کی ایک کرن کافی نہیں ہے بلکہ کمزور بینائی والوں کو تو یہ نظر بھی نہیں آتی جس کے لیے انہیں اپنی عینک کا نمبر بدلوانا چاہیے یا کسی دور بین کا انتظام کرنا چاہیے تا کہ وہ اس کرن سے اچھی طرح لطف اندوز ہو سکیں، تاہم وہ اعتماد کا ووٹ ضرور حاصل کر لیں گے جبکہ خطرہ صرف ان 16ارکان سے ہے کہ وہ کہیں دوسرے ارکان کو بھی گمراہ کر کے اپنے ساتھ نہ ملا لیں اور اس طرح سارا کھیل ہی خراب ہو جائے۔ آپ اگلے روز ایک تقریبِ حلف وفاداری سے خطاب کر رہی تھیں۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
مٹی تھی کس جگہ کی
بے فیض ساعتوں میں، منہ زور موسموں میں
خود سے کلام کرتے
اُکھڑی ہوئی طنابوں، دن بھر کی سختیوں سے
اُکتا کے سو گئے تھے
بارش تھی بے نہایت
مٹی سے اُٹھ رہی تھی
خوشبو کسی وطن کی
خوشبو سے جھانکتے تھے
گلیاں، مکاں، دریچے
اور بچپنے کے آنگن، اک دھوپ کے کنارے
آسائشوں کے میداں، اُڑتے ہوئے پرندے
اک اُجلے آسماں پر
دو نیم باز آنکھیں، بیماریوں کی زد پر
تا حدِ خاک اُڑتے
بے سمت، بے ارادہ
کچھ خواب فرصتوں کے
کچھ نام چاہتوں کے
کن پانیوں میں اُترے
کن بستیوں سے گزرے
تھی صبح کس زمیں پر
اور شب کہاں پہ آئی
مٹی تھی کس جگہ کی
اُڑتی پھری کہاں پر
اس خاکداں پہ کچھ بھی
دائم نہیں رہے گا
ہے پائوں میں جو چکر
قائم نہیں رہے گا
دستک تھی کن دنوں کی
آواز کن رتوں کی
خانہ بدوش جاگے
خیموں میں اُڑ رہی تھیں
آنکھوں میں بھر گئی تھیں
اک اور شب کی نیندیں
اور شہرِ بے اماں میں
پھرصُبح ہو رہی تھی
آج کا مطلع
ہمارا دل ابھی تک بے خبر ویسے کا ویسا ہے
بہت اجڑا بھی ہے یہ گھر مگر ویسے کا ویسا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں