"ZIC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل

نواز شریف واپس آ جائیں اور استعفے لے لیں: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''نواز شریف واپس آ جائیں اور استعفے لے لیں‘‘ کیونکہ ہمارا استعفے دینے سے کوئی انکار نہیں ہے، ہمارے استعفے بالکل تیار ہیں، بس ان کے آنے کی دیر ہے، بلکہ پارٹی اراکین کے استعفے تو میری جیب میں ہیں اور اگر میں پھر بھی لیت و لعل کروں تو وہ میری جیب سے استعفے خود بھی نکال سکتے ہیں چونکہ ہم دونوں اس کام میں ماہر ہیں اس لیے ان کے لیے یہ کام بھی کوئی مشکل نہ ہو گا ۔اگر انہیں ہمارے استعفوں کی واقعی ضرورت ہے تو وہ ملک واپس آ کر لے لیں، ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں دیگر رہنمائوں کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
آصف زرداری کی سمجھداری، باپ بیٹی کی ذاتی
مفاد کی لڑائی سے کنارہ کشی اختیار کر لی: شہزاد اکبر
وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ''زرداری کی سمجھداری، باپ بیٹی کی ذاتی مفاد کی لڑائی سے کنارہ کشی اختیار کر لی‘‘ کیونکہ ان کے اپنے مفاد پر اس سے ضرب پڑ رہی تھی اور ہر کسی کو اپنا مفاد ہی عزیز ہوتا ہے جبکہ نواز لیگ والے ویسے بھی زرداری صاحب کے آگے طفلِ مکتب ہی لگتے ہیں، اور اگر وہ واقعی فہم و فراست کی اس بلندی تک پہنچنا چاہتے ہیں تو انہیں زرداری صاحب سے ٹیوشن پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے اگرچہ اس میں بھی وہ اپنا آخری دائو اس طرح بچا لیں گے جیسے بلی نے درخت پر چڑھنے کا دائو بچا لیا تھا۔ آپ اگلے روز پی ڈی ایم رہنمائوں کی پریس کانفرنس کا جواب دے رہے تھے۔
والد کو قاتلوں کے حوالے نہیں کر سکتے: مریم نواز
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''والد کو قاتلوں کے حوالے نہیں کر سکتے‘‘ اور یہ ملک انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے ہمارے لیے ایسی ہی حیثیت رکھتا ہے، حالانکہ دولت آنی جانی چیز ہے اور اسی بات کی صداقت جانچنے کے لیے ہم نے یہ اکٹھی کی تھی اور اسی نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ جانے کے لیے ہی آتی ہے؛ تاہم ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس محاورے کو غلط ثابت کر سکیں، اور اسی لیے اس کی واپسی کا نام تک نہیں لے رہے کہ اس کی واپسی نعمتوں کا کفران بھی ہے۔ آپ اگلے روز دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
پیپلز پارٹی نے استعفوں کی سازش کا پانسہ پلٹ دیا: فواد
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد احمد چودھری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی نے استعفوں کی سازش کا پانسہ پلٹ دیا‘‘ بلکہ ساتھ ہی پی ڈی ایم کا پانسہ بھی پلٹا دیا ہے اور حکومت کی جان میں جان آئی ہے کیونکہ اپنے شور شرابے سے یہ حکومت کو کوئی کام کرنے نہیں دے رہے تھے، اگرچہ حکومت ویسے بھی اس سے کافی پرہیز اختیار کیے ہوئے تھی کیونکہ وہ اس سنہرے اصول پر عمل کر رہی تھی کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے اور ایک طرح سے حکومت کو ویکسین کا انجکشن لگ گیا ہے ورنہ اس نے اپنے لیے قرنطینہ تیار کر رکھا تھا کہ اس کی نوبت کسی وقت بھی آ سکتی تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ٹھگوں کے ٹولوں کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے: عظمیٰ بخاری
نواز لیگ پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''ٹھگوں کے ٹولوں کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے‘‘ کیونکہ لانگ مارچ ملتوی ہونے اور اپوزیشن میں پھوٹ پڑنے کے بعد اب انہیں اپنا انجام صاف نظر آنا شروع ہو گیا ہے‘ جس میں بنیادی کردار پیپلز پارٹی کا ہے جس نے استعفے دینے سے انکار کر دیا اور مولانا صاحب پریس کانفرنس کو بیچ میں چھوڑ کر چلے گئے اور مریم نواز صاحبہ انہیں پکارتی ہی رہ گئیں اور اب یہ ٹولہ کافی آرام سے ہے جبکہ ویسے بھی یہ لوگ سڑکوں پر چل چل کر کافی نڈھال ہو چکے تھے اور انہیں آرام کی سخت ضرورت تھی اور اب یہ یقینی طور پر مستقل آرام کی کیفیت میں رہیں گے۔ آپ اگلے روز فردوس عاشق اعوان کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہی تھیں۔
الحمرا
یہ ماہنامہ لاہور سے ہمارے دوست شاہد علی خان شائع کرتے ہیں، یہ مارچ 2021ء کا شمارہ ہے۔ ابتدا میں چند یادگار تصاویر ہیں جن میں زاہد ڈار مرحوم کا خاکہ بھی ہے جو اسلم کمال کا تیار کردہ ہے۔ مضامین لکھنے والوں میں بشریٰ رحمن، پروفیسر حمید احمد خاں، پروفیسر فتح محمد ملک، محمد اکرام چغتائی، مستنصر حسین تارڑ، جمیل یوسف، ڈاکٹر اے بی اشرف، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، سلمیٰ اعوان و دیگر شامل ہیں۔ آپ بیتی میں اسلم کمال اور ڈاکٹر اختر شمار کا مضمون، افسانوں میں بشریٰ رحمن اور نیلم احمد بشیر نمایاں ہیں، حصۂ نظم میں ستیہ پال آنند، جواز جعفری اور اسلم انصاری و دیگران جبکہ غزلوں میں نذیر قیصر، امجد اسلام امجد اور دیگران۔ اس کے علاوہ سفر نامے ہیں اور گوشۂ مزاح، ٹائٹل حسبِ معمول اسلم کمال کا ہے۔
نامعلوم
ایک صاحب کسی کام سے پیرس گئے۔ کچھ دن بعد وہاں کی ایک حسینہ سے راہ و رسم پیدا کر لی،اور ایک ریستوران میں اسے کافی وغیرہ کی دعوت دی۔ راستے میں اسے سڑک پر پڑا ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا جو موصوف نے اٹھا لیا جو فرانسیسی زبان میں تھا۔ ریستوران پہنچا تو لڑکی ان کا انتظار کر رہی تھی جسے وہ کاغذ انہوں نے پڑھنے کے لیے دیا کہ اس پر کیا لکھا ہے۔ لڑکی نے کاغذ پڑھتے ہی اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کیا اور ریستوران سے باہر نکل گئی۔ انہوں نے وہ کاغذ کائونٹر پر بیٹھے شخص کو پڑھنے کے لیے دکھایا تو اس نے تھپڑ مارنے کے علاوہ اپنے بیروں سے کہا کہ اسے اٹھا کر ریستوران کے باہر پھینک دیں۔ وہ صاحب باہر نکلے تو سڑک پر جاتے دو آدمیوں کو وہ کاغذ دکھایا جنہوں نے سڑک پر لٹا کر اس کی خوب دھلائی کی۔ ان کا ایک دوست کافی عرصے سے پیرس میں مقیم تھا جو فرانسیسی جانتا تھا۔ انہوں اسے بتایا اور کہا کہ آ کر ان کی یہ مشکل آسان کرے۔ دوست نے کہا کہ وہ بحری جہاز سے کہیں جا رہا ہے، بندرگاہ پر آ کر اس سے ملاقات کرے۔ وہ وہاں پہنچے تو ان کا دوست جہاز کے عرشے پر کھڑا انتظار کر رہا تھا جس نے دیکھتے ہی انہیں کہا کہ اوپر آنے کا راستا تو بند ہو چکا ہے وہ کاغذ کی گولی بنا کر اوپر پھینک دے۔ موصوف نے ایسا ہی کیا لیکن وہ گولی سمندر میں جا گری اور آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کاغذ پر کیا لکھا تھا!
اب آخر میں کچھ شعر و شاعری:
مستیاں پکڑ کے لا... سیٹیاں پکڑ کے لا
پھول زرد ہو چکے... تتلیاں پکڑ کے لا
رو رہا ہے مسخرہ... تالیاں پکڑ کے لا
خوبیاں ہیں جا بجا... خامیاں پکڑ کے لا
دل پہ دستکیں نہ دے... چابیاں پکڑ کے لا
(انس سلطان، فرستادہ ادریس بابر)
٭......٭......٭
ایک خلا سا تو میری ذات میں ہے
تشنگی ساری کائنات میں ہے
ایک صحرا تو ہے مرے اندر
ایک دریا بھی ساتھ ساتھ میں ہے
اس سے آگے بھی بے ثباتی ہے
کیا تغیر مرے ثبات میں ہے
اس پہ صدیوں کا قرض ہے واجب
کس قدر بے کلی فرات میں ہے
ان لکیروں میں کچھ نہیں ہے جلیلؔ
میری قسمت تو اس کے ہاتھ میں ہے
(اوکاڑہ سے احمد جلیل)
آج کا مقطع
شاعری اور طرح کی اسے کہتے ہو‘ ظفرؔ
میں پریشاں ہوں کہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں