"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، کاشف حسین غائر اور تازہ غزل

استعفوں پر پی پی نہ مانے تو راہیں جدا کر لیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''استعفوں پر پیپلز پارٹی نہ مانے تو راہیں جدا کر لیں‘‘ اگرچہ پیپلز پارٹی کے بغیر یہ تحریک بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گی حالانکہ یہ شروع سے ہی کافی بے معنی چلی آ رہی تھی؛ تاہم کم از کم رینگتی تو رہے کہ یہ بھی چلنے ہی کی ایک شکل ہے جس سے ایک تو دانہ دُنکا چلتا رہے گا اور دوسرے میں یہاں بالکل فارغ ہو کر بیٹھ جائوں گا جبکہ مریم نواز کی پیشیاں اور دیگر معاملات بھی شروع ہونے والے ہیں اور دراصل یہ ہاتھ پیپلز پارٹی نے آپ کے ساتھ کیا ہے جس کا مجھے افسوس ہے۔ آپ اگلے روز فون پر مولانا فضل الرحمن سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کی سیاست میں شہباز شریف اور
حمزہ شہباز کی خاموشی عجیب ہے: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ 'پی ڈی ایم کی سیاست میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی خاموشی عجیب ہے‘‘ اگرچہ وہ کوئی خاص عجیب بھی نہیں ہے ممکن ہے کہ وہ دائو پر ہوں کیونکہ وہ دیگر رہنمائوں کے خلاف گھیرا تنگ ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس طرح انہیں پارٹی میں اپنی گنجائش نکلتی نظر آ رہی ہے حالانکہ خود انہیں بھی اپنی خیر منانی چاہیے کیونکہ ان کے اپنے ستارے زیادہ گردش میں ہیں جس طرح کچھ دن قبل تک ہمارے ستارے گردش میں تھے، لیکن بھلا ہو پیپلز پارٹی کا جس نے استعفوں سے انکار کر کے پی ڈی ایم کے غبارے سے ساری ہوا نکال دی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
کوئی ساتھ رہے نہ رہے‘ تحریکیں رکتی نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کوئی ساتھ رہے نہ رہے، تحریکیں رکتی نہیں‘‘ کیونکہ اگر ان کے سربراہ کی دیکھ بھال کی جاتی رہے تو تحریک کیسے رک سکتی ہے یعنی اگر انجن میں تیل وافر موجود ہو تو یہ کیوں فراٹے نہیں بھرے گی اور ہوا سے باتیں نہیں کرے گی؟اس طرح تحریکوں کے لیے جب تک ایندھن ملتا رہے یہ بھی پوری رفتار سے جاری رہتی ہیں۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے اس سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور اب نواز لیگ ہی کو یہ خرچہ پورا کرنا پڑے گا کیونکہ باقی پارٹیوں کی تو مالی حالت ویسے ہی دگرگوں ہے اور پتا نہیں وہ اپنا گزارہ کیسے کر رہی ہیں۔ آپ اگلے روز میاں نواز شریف سے پی ڈی ایم کے مستقبل پر گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم اپنے ذاتی مفاد کی جنگ لڑ رہی ہے: اعجاز چودھری
پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے صدر اعجاز چودھری نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم اپنے ذاتی مفاد کی جنگ لڑ رہی ہے‘‘ جبکہ ہم ایسا ہرگز نہیں کر رہے کیونکہ ہمارے مفادات ایک خود کار نظام کے تحت کام کر رہے ہیں اور ہمیں ان کے لیے کوئی جنگ لڑنے کی ضرورت ہی نہیں جبکہ ہم ویسے بھی امن پسند آدمی ہیں اور لڑائی بھڑائی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے، کیونکہ ہم نے جن سے لڑنا ہوتا ہے، لڑائی سے پہلے ہی ان سے صلح کر لیتے ہیں جبکہ شاعر نے بھی یہی کہہ رکھا ہے کہ ؎
صُلح کر لو یگانہؔ غالبؔ سے
وہ بھی استاد، تم بھی اک استاد
آپ اگلے روز ایم ڈبلیو ایم کے وفد کو سینیٹر بننے پر مبارکباد دے رہے تھے۔
حکومت مزدوروں کو فلیٹس دے کر ٹرافی لینا چاہتی: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عمران خان مزدوروں کو فلیٹس دے کر ہی ٹرافی لینا چاہتے ہیں‘‘ جبکہ یہ مزدوروں کی عادتیں مزید خراب کرنے والی بات ہے کیونکہ مزدور جفا کش لوگ ہوتے ہیں اور مکان وغیرہ کی پروا نہیں کرتے اور سڑک پر بھی قیام کر سکتے ہیں جبکہ یہ آنے والی حکومت کی راہ میں بھی مشکلات کھڑی کرنے کے مترادف ہے، اگرچہ ہماری حکومت کے آنے کا مستقبل میں دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا؛ تاہم اس سے پیپلز پارٹی کو ضرور پریشانی ہو گی جس کے تھوڑے تھوڑے آثار نظر آ رہے ہیں اور جو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے کے باوجود اسے بھول گئی تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
آسماں آنکھ اٹھانے سے کھلا
یہ کراچی سے جدید اردو غزل کے ممتاز شاعر کاشف حسین غائر کا مجموعۂ غزل ہے۔ اندرون و بیرونِ سرورق تحسینی رائے دینے والوں میں محمد سلیم الرحمن، آصف فرخی، شعیب بن عزیز، شاہین عباس اور یہ خاکسار شامل ہیں۔ انتساب اس طرح سے ہے، رسا بھائی کے نام جنہوں نے مجھے میرے ہونے کا احساس دلایا ؎
کروں کیسے شامل تمہیں رفتگاں میں
مجھے زندگی کا پتا دینے والے
گیٹ اَپ عمدہ ہے اور پسِ سرورق شاعر کی تصویر درج ہے۔ نمونۂ کلام:
آسماں آنکھ اٹھانے سے کھلا
راستا خاک اُڑانے سے کھلا
٭......٭......٭
کتنی دیواریں‘ کتنے دروازے
ڈر کے مارے بنا لیے میں نے
٭......٭......٭
کہاں تھی گرمیٔ بازار ایسی
یہ سودا میں نے ہی مہنگا خریدا
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
جب خود سے جدا ہو جاتا ہوں
ہلکا پھلکا ہو جاتا ہوں
سر سبز گھاس کو دیکھ دیکھ
میں آپ ہرا ہو جاتا ہوں
میں کچھ بھی نہیں ہوتا‘ لیکن
پھر بھی کیا کیا ہو جاتا ہوں
کرتا ہوں یاد تجھے جس دم
تیرے جیسا ہو جاتا ہوں
اچھے اچھوں میں رہ رہ کر
کچھ اور بُرا ہو جاتا ہوں
اپنا ہی دیا بجھانے کو
کیا تُند ہوا ہو جاتا ہوں
جیسا ہونا نہیں چاہتا میں
اکثر ویسا ہو جاتا ہوں
کرتا ہوں کوشش جینے کی
اور مرتا ہوا ہو جاتا ہوں
ہونا جو کبھی پڑ جائے‘ ظفرؔ
جھوٹا سچا ہو جاتا ہوں
آج کا مقطع
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں‘ ظفرؔ
پھر اُس کے بعد اِسے میں نے پار کرنا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں