جمہوری حکومتیں ملک کو ترقی دیتی ہیں
تو انہیں ناکام کر دیا جاتا ہے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''جمہوری حکومتیں ملک کو ترقی دیتی ہیں تو انہیں ناکام کر دیا جاتا ہے‘‘ اور وہ ملک کو اس کے خزانے اور روپے پیسے سے اس لیے فارغ کر دیتی ہیں تا کہ ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے اور روپے پیسے جیسی قباحت کا محتاج نہ رہے اور ملک سے باہر جائیدادیں بھی اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ ان ملکوں میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہو، نیز یہ جمہوری حکومتیں آپس میں باریاں مقرر کرتی ہیں تا کہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے ترقی دے سکیں اور ایک دوسرے سے یہ بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ تم نے ملک کو کتنی ترقی دی۔ آپ اگلے روز پارٹی کے یوتھ ونگ کنونشن سے ورچوئل خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب کو کرپشن فری بنانا ہمارا مشن ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پنجاب کو کرپشن فری بنانا ہمارا مشن ہے‘‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کا غلط مطلب لیا گیا ہے اور کرپشن آہستہ آہستہ مکمل طور پر فری ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے ایک الگ سے محکمہ قائم کیا جا رہا ہے جو ایسے عناصر کو کرپشن فری کا مطلب سمجھائے گا کیونکہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حکومت کے ساتھ بعض بلکہ اکثر دیگر عناصر کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے اور اس طرح حکومت پر یہ دہرا بوجھ آن پڑا ہے کہ اسے سیکھنے کے علاوہ دوسروں کو بھی سکھانا پڑ رہا ہے جس سے حکومت کی کارکردگی پر بھی اثر پڑا ہے۔ آپ اگلے روز ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
کوئی ڈر نہیں، اب حساب لینے کا وقت ہے: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''کوئی ڈر نہیں، اب حساب لینے کا وقت ہے‘‘ کیونکہ جو حساب دینے کا وقت تھا، وہ ہم نے ٹال مٹول کر کے گزار دیا ہے جس پر ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی ہو رہی ہیں، نیز کچھ حساب ہم آئندہ پیشی کے موقع پر بھی لینے دینے کا ارادہ رکھتے ہیں جب طالب علموں اور کارکنوں کا ہجوم زبردستی اندر داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو حکومت کو یا ہمیں‘ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں مسلم لیگ یوتھ ونگ سے خطاب کر رہی تھیں۔
رسیدیں دیں یا پلی بارگین کر لیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''رسیدیں دیں یا پلی بارگین کر لیں‘‘ کیونکہ یہ ہرگز کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے، کیونکہ اس میں بھی اپنی کمائی کا زیادہ سے زیادہ ایک چوتھائی ہی دینا پڑے گا اور باقی سب منافع ہی منافع ہے اور اس کے بعد یہ لوگ بیشک لندن سدھار جائیں اور ملک و قوم کی خدمت وہاں بیٹھ کر کرتے رہیں جیسا کہ ان کے قائد کر رہے ہیں جبکہ اس طرح نا اہل ہو جانے کے بعد یہ لوگ زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کر سکتے ہیں اور اس طرح ان کی جائیدادیں بھی بچ جائیں گی اور یہ فکر معاش سے بھی آزاد ہو جائیں گے لیکن چونکہ یہ مفت مشورہ ہے اس لیے اس پر عمل کرنے کا امکان بھی بہت کم ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ہزاروں پی ڈی ایم کارکن بھی نیب جائیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہزاروں پی ڈی ایم کارکن بھی نیب جائیں گے‘‘ جس کا ایک مطلب تو یہ ہوگا کہ جہاں ہزاروں کارکن حاضر ہو جائیں گے تو وہاں ہماری پیشی کی کیا ضرورت ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے نتیجے میں دما دم مست قلندر ہونا بھی یقینی ہوگا جو بالآخر حکومت کے گھر جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر اتنی گرما گرمی تو پیدا ہو جائے گی جس سے پی ڈی ایم کے تنِ مردہ میں ایک جان پڑ جائے گی جس کے تابوت میں پیپلز پارٹی نے آخری کیل بھی ٹھونک دیا تھا، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ بالآخر عوضانہ ہو چکا ہے اور اب کام کے رکنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آپ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مریم سے انتقام لیا جا رہا ہے: کیپٹن (ر) صفدر
مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کے صدر کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا ہے کہ ''مریم سے انتقام لیا جا رہا ہے‘‘ تاہم؛ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کس بات کا انتقام لیا جا رہا ہے کیونکہ بار بار پوچھنے کے باوجود ہمارے قائدین بھی نہیں بتا سکے کہ ہم سے کون اور کس بات کا انتقام لے رہا ہے جبکہ ہمیں بھی شک ہے کہ آخری کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے لیکن جب ہمارا دامن بالکل صاف ہے اور ہم نے کوئی چیز بھی اپنے دامن میں چھپا کر نہیں رکھی ہوئی تو یہ کارروائیاں بالکل غیر ضروری ہیں کیونکہ اثاثے بنانا آئین پاکستان کے مطابق سب کا بنیادی حق ہے۔ آپ اگلے روز یوتھ ونگ کنونشن کے انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں شعیب زمان کی شاعری:
بنا خوشبو کے ہم نے گُل کھلایا
خدا جانے اسے کس نے بتایا
ہمارے خواب سب سے قیمتی ہیں
تری آنکھوں سے اندازہ لگایا
یہ کس مٹی میں آخر بیج بوئے
کہاں آ کر مجھے تُو نے اُگایا
خوشی سے کانپتے تھے سردیوں میں
کہیں سے دھوپ نے جو منہ دکھایا
انہیں سر سبز قبریں کیوں نہ بولیں
میں جن پر گھاس اُگتی دیکھ آیا
میں پہلے موت سے ڈرتا تھا لیکن
اچانک زندگی کا بھید پایا
٭......٭......٭
پیڑوں نے یوں موسم کا دُکھ جھیلا تھا
چاروں جانب پتوں کا واویلا تھا
دیکھنے والے دیکھ رہے تھے حیرت سے
دیواروں پر تصویروں کا میلا تھا
بھٹک رہے تھے سارے منظر میرے ساتھ
اُن آنکھوں میں ایسا جنگل بیلا تھا
خاموشی کے پتھر سے ٹکرانے کو
باغ میں اک چڑیا کا شور اکیلا تھا
ہم کو کب معلوم تھا دل بھی ٹوٹیں گے
کھیل تو ہم نے کھیل سمجھ کر کھیلا تھا
آج کا مطلع
تاخیر ہو چکی ہے سوا تین ہو گئے
سارے ہی کام نذرِ خواتین ہو گئے