مقامی صورت حال یہ ہے کہ بارشیں ہونے کی وجہ سے گھاس مزید سبز اور روشن ہو گئی ہے۔ صبح کے وقت اس پر ننگے پائوں چلنا ہی میرا معمول تھا جو ایک دو دن میں شروع کروں گا کیونکہ ٹھنڈ صبح کے وقت اب بھی کافی ہوتی ہے۔ شہتوت کی فصل تیار ہے جس سے استفادہ شروع کر دیا گیا ہے، چیکو پورے سائز کے تو ہو چکے ہیں لیکن ابھی پکنے میں کچھ دن لگیں گے۔ جامن بھی چند روز تک لگنا شروع ہو جائیں گے۔ ایک افسوس ناک خبر یہ ہے کہ موسمبی کے سارے پودے کالونی کو کھلا کرنے کی غرض سے اکھڑوا کر ملحقہ پلاٹ میں لگوا دیے گئے تھے اور وہ بھی میری غیر حاضری میں‘ جب میں کچھ دن کے لیے چھوٹے بیٹے جنید کے پاس گیا ہوا تھا۔ وہ پودے پھوٹ تو رہے ہیں لیکن ابھی پھول پھل سے محروم ہیں‘ اب صرف نمائشی مالٹے کے دو پودے رہ گئے ہیں، وہ بھی اس لیے کہ کنارے پر واقع تھے۔ اس کے علاوہ گریپ فروٹ کے دو پودے بھی سلامت رہ گئے ہیں جو کنارے پر تھے۔
سردی کی وجہ سے چڑیوں کا شور کچھ کم رہا‘ لیکن انہوں نے پھر گھونسلے بنانا شروع کر دیئے ہیں اور ان کے لڑائی جھگڑے بھی پھر سے شروع ہو گئے ہیں‘ جو زیادہ تر گھونسلوں کی جگہوں کے انتخاب اور ان پر قبضوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ قمریوں کے دو تین جوڑے بھی شکل دکھا جاتے ہیں، البتہ فاختہ یہاں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ سرخاب جو کناروں پر لگے بانس کے درختوں میں رہائش پذیر تھے‘ وہ بھی غائب ہیں کیونکہ بانسوں کی جڑوں میں سانپوں نے قیام شروع کر دیا تھا اور رات کو ان میں سے کئی باہر نکلتے اور جان سے بھی جاتے رہے۔ کوّے اور لالیاں حسب ِ سابق اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں، کبھی کبھار ممولا اور کوئل بھی۔ باقی درجہ بدرجہ خیریت ہے!
اب کچھ جدید کھانوں کی ترکیبوں کا ذکر ہو جائے۔
کباب
کباب بناتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کباب میں ہڈی نہ رہ جائے ورنہ وہ کباب میں ہڈی ہی ثابت ہو گی۔ اگر شامی کباب بنانا چاہیں تو یہ زیادہ سے زیادہ شام ہی کے وقت بنائے جا سکتے ہیں! البتہ ملک شام کے دارالحکومت سے درآمد بھی کئے جا سکتے ہیں۔ سیخ کباب بنانے سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ انہیں کھانے والا سیخ پا ہو جایا کرتا ہے یا سیخ کباب کھانے والے کی گردن میں سیخ نما سریا آ جاتا ہے۔
کھیر
کھیر بناتے وقت یہ احتیاط لازم ہے کہ بنتے بنتے یہ کھیر کہیں ٹیڑھی نہ ہو جائے ورنہ آسانی سے کھائی نہ جا سکے گی جبکہ اس کے لیے ایک چرخہ بھی درکار ہو گا کہ بقول شاعر ؎
کھیر پکائی جتن سے، چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا
یعنی چرخے کے علاوہ ایک عدد ڈھول بھی درکار ہوگا۔ تیسری احتیاط یہ ہے کہ کھیر جب تیار ہو جائے تو ٹھنڈی کرکے کھائی جائے ورنہ منہ جل جانے کا خطرہ موجود رہے گا۔ سرائیکی میں چونکہ کھیر دودھ کو کہتے ہیں اس لیے وہاں کھیر کھائی نہیں بلکہ پی جاتی ہے۔ کھیر کے مذکر کو کھیرا کہتے ہیں جس کے بارے میں آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ یہ پھل ہے یا سبزی۔ بعض حضرات کے مطابق‘ یہ دونوں میں سے کچھ بھی نہیں۔
کوفتے
کوفتے تیار کرنے میں کوفت تو بہت ہوتی ہے لیکن شوق کا بھی کوئی مول نہیں ہوتا۔ کوفتوں کی گولائی کو یقینی بنانے کے لئے کسی اچھے پرکار سے بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ ٹیڑھے میڑھے او بدہیئت کوفتے کسی کو پسند نہیں آتے۔ کوفتہ اتنا سخت اور جری ہونا چاہیے کہ آلۂ ضرب کے طور پر استعمال کیا جا سکے یا کم از کم دفاعی ہتھیار کے طور پر کام میں لایا جا سکے۔
پلائو
محض میاں مٹھو کی رٹ لگانے سے پلائو تیار نہیں ہو سکتا، البتہ اس طرح خیالی پلائو ضرور پکایا جا سکتا ہے۔ پلائو پکاتے وقت باتیں کرنے والے طوطوں کو نظرانداز کرنا ہو گا کیونکہ اگرباتیں ہی سن سن کر کان پکوانا ہوں تو بیوی کیا بری ہے۔ اگر پلائو پکاتے ہوئے طوطوں کی باتیں سننا ضروری ہو تو درختوں پر پھل کترنے والے طوطے بہتر رہیں گے‘ البتہ جیب کترے طوطوں سے پرہیز اوراحتیاط لازم ہے۔ ایسے طوطوں کو فوقیت دینی چاہیے جن کی ناک بالکل طوطے جیسی ہو اور جو کسی شاخ وغیرہ سے اُڑ سکتے ہوں۔
اور اب آخر میں عامر سہیل کی تازہ غزل:
شراب گوندھ کے آنکھوں میں کون لاتا ہے
کہاں ہے حور جسے تھامنا بھی آتا ہے
وہ ہارتی ہے محبت کھنکتے ساحل پر
تو سیپائی سمندر بھی ہار جاتا ہے
غزل بہانہ ہے یہ رف عمل بہانہ ہے
قلم ابھی بھی ترا جسم گنگناتا ہے
کھڑی ہے چاروں طرف وہ جڑی ہے چاروں طرف
میں راستے کو، مجھے راستا گھماتا ہے
وہ گردوارے کی اینٹوں میں سانس لیتی ہے
ابھی بھی آنکھ کا کاجل اسے ستاتا ہے
میں پر کہانی کے چپکے سے کھول دیتا ہوں
تمہارے چہرے پہ جب جھوٹ مسکراتا ہے
حلب کی لڑکیاں چپ کا طواف کرتی ہیں
یہ دل نہیں ہے سمرقند کا احاطہ ہے
پلک چبھی تو نہیں، زندگی بجھی تو نہیں
میں چھو رہا ہوں وہ لہجہ کھنکتا جاتا ہے
اور ایک لڑکی جسے اوڑھنی کا ہوش نہیں
اور ایک گھر جو محبت بہت جتاتا ہے
کواڑ کھول سمے آپ اس شبستان کے
یہ میر جعفر و صادق کو کیا بلاتا ہے
جنوں گزیدہ ہیں عامرؔـ، سکوں گزیدہ ہیں
ہمارا دشت سے دیوانگی کا ناتا ہے
وہ ہنستے ہنستے اچانک ہی رو پڑی عامرؔ
بتا رہی تھی کہ ہنسنا اسے بھی آتا ہے
وہ اس جمود کو کیوں توڑتا نہیں عامرؔ
وہ یہ عمود محبت پہ کیوں گراتا ہے
میں اس چراغ کی مہلت کا کیا کروں عامرؔ
جو میری آنکھ میں آوارگی بچھاتا ہے
وہ ہو رہی ہے محبت سے جوگیا عامرـؔ
یہ چاند پوچھ کے جس کی گلی میں آتا ہے
آج کا مقطع
فصیلِ شوق اٹھانا، ظفرؔ، ضرور مگر
کسی طرف سے نکلنے کا راستا رکھنا