"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، شمس الرحمن فاروقی نمبر اور مسعود احمد

وزراء کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے
وزارتوں میں تبدیلی ضروری تھی: شبلی فراز
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''وزراء کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وزارتوں میں تبدیلی ضروری تھی‘‘ جیسا کہ میری کارکردگی میں بیحد اضافہ ہوا ہے کیونکہ مجھے سائنس میں بھی ادنیٰ جانکاری حاصل ہے اور جونہی وزیراعظم کو میری اس اہلیت کا علم ہوا انہوں نے مجھے یہ وزارت سونپ دی گئی؛ چنانچہ میں اب اسے سائنٹفک طریقے سے چلائوں گا اور لیبارٹری میں اس کے اسرار و رموز پر تجربات کر کے اسے بہتر بنانے کی کوشش کروں گا ۔آپ اگلے روز ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
وزارتِ خزانہ پیچیدہ مسئلہ، حکومتی سوچ بچکانہ ہے: رضا ربانی
سابق چیئر مین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ''وزارتِ خزانہ پیچیدہ مسئلہ، حکومتی سوچ بچکانہ ہے‘‘ کیونکہ وزارتِ خزانہ کا تعلق روپے پیسے سے ہے جس کی حکومت کو کوئی سوجھ بوجھ نہیں ہے جبکہ یہ صرف مہارت کا مسئلہ ہے اور یہ مہارت ہماری جماعت اور نواز لیگ سے زیادہ کسی کے پاس نہیں ہے بلکہ ہمارے آگے نواز لیگ بھی کیا بیچتی ہے جبکہ فرضی اور جعلی اکائونٹس ایک اور ہی سلسلہ ہے، اس لیے حکومت اگر چاہے تو ہم اسے ایک بہترین وزیر خزانہ مہیا کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے ہر چیز قوم کے سامنے پیش کر دی: یاسمین راشد
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے ہر چیز قوم کے سامنے پیش کر دی‘‘ جن میں سب سے نمایاں چیز ان کی کابینہ ہے، اور یہ انہیں ہر چند ماہ کے دوران قوم کو پیش کرنا پڑتی ہے کیونکہ اس دوران اس کی ہیئت یکسر تبدیل ہو چکی ہوتی ہے جبکہ اس سے بھی پہلے قوم کو جو یادگار چیز پیش کی تھی وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے جس کے بعد مزید کسی چیز کے پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہی چیز قوم کے لیے حد سے زیادہ کافی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مستقبل قریب میں قوم کے سامنے کوئی اور چیز پیش کر دیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھیں۔
ضمانت کے باوجود شہباز کی رہائی نہ ہوناحکومتی بغض ہے:گورائیہ
نواز لیگ کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عمران گورائیہ نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کی ضمانت کے باوجود رہائی نہ ہونا حکومت کا بغض ہے‘‘ اگرچہ ان کے باہر آنے سے حکومت کا بھی فائدہ ہوتا کیونکہ وہ موجودہ کے بجائے اپنا بیانیہ چلانے والے تھے جو چپقلش کے بجائے مفاہمت کا آئینہ دار ہوتا ۔اس لیے جب تک وہ باہر نہیں آتے، حکومت کو میاں نواز شریف والے بیانیے ہی کی موسیقی پر گزر اوقات کرنا پڑے گی۔ آپ اگلے روز شہباز شریف کے رہا نہ ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔
ملک میں انتشار کی اجازت نہیں دی جا سکتی: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''ملک میں انتشار کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘ کچھ لوگ اجازت حاصل کیے بغیر اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں؛ تاہم جو لوگ اس کی اجازت کے لیے درخواست دینا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی درخواست میں پوری وضاحت سے لکھیں کہ وہ کہاں کہاں اور کن طبقات کے درمیان انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اور اس کے حدود و قیود کیا ہوں گے اور یہ بھی کہ انتشار پھیلانے کا عرصہ کہاں تک ہوگا، نیز یہ بھی یاد رکھا جائے کہ یہ انتشار پُرامن ہو گا اور اس دوران کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہو گی۔آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
رنگِ ادب کا شمس الرحمن فاروقی نمبر
کراچی سے ہمارے دوست، شاعر اور نقاد شاعر علی شاعر کی ادارت میں شائع ہونے والے اس کتابی سلسلے کی یہ خصوصی یادگار دستاویز ہے جس میں اردو دنیا کے لیجنڈ ادیب شمس الرحمن فاروقی پر یہ اولین اشاعت ادارے کا اعزاز بھی ہے۔ مجلد اور 800 صفحات پر مشتمل اس سلسلے کا یہ 54 اور 55واں شمارہ ہے جس میں فاروقی کی مختلف تخلیقی جہتوں پر بیش قیمت مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ اس کے تخلیق کاروں میں ن م راشد، ڈاکٹر انورسدید، غلام عباس، نیر مسعود، سرور الہدیٰ، ندیم صدیقی، مبین مرزا، محمد حمید شاہد، عقیل عباس جعفری، پروفیسر اشتیاق احمد، قمر صدیقی، صبا اکرام، انیس صدیقی، ابرار اعظمی، اے خیام اور ڈاکٹر اسحاق وردگ نمایاں ہیں۔ فاروقی کے انٹرویوز، منظوم خراجِ عقیدت، فاروقی کے خطوط، نگارشات، منتخب شاعری اور تراجم شامل ہیں۔ ٹائٹل پر فاروقی کی متعدد تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ اس کارنامے پر شاعر علی شاعر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اور‘ اب آخر میں مسعود احمد کی تازہ غزل:
چھپا ہوا تھا مگر آشکار ہونا پڑا
یہ جنگ جیت کے مجھ کو فرار ہونا پڑا
سواری کوئی میسر تھی کب سفر کے لیے
سو اپنے سر پہ ہی مجھ کو سوار ہونا پڑا
یہ سوچتا ہوں کہیں اس کی وجہ میں تو نہیں
یہ دربدر جو مجھے بار بار ہونا پڑا
شدید چوٹ سے آنکھیں پھٹی رہیں میری
اسی لیے مجھے زندہ شمار ہونا پڑا
وہ اک خوشی جو اکیلی بھٹکتی پھر رہی تھی
غموں کے ساتھ اسے ہمکنار ہونا پڑا
یہ دیس بھی مجھے پردیس کی طرح ملا ہے
مجھے وطن میں غریب الدیار ہونا پڑا
اس آئینے نے مجھے عکس میں چھپا لیا تھا
سو آئینے کے مجھے آر پار ہونا پڑا
جب اس قطار کے اگلے سرے پہ میں پہنچا
مجھے قطار سے پھر بے قطارہونا پڑا
آج کا مقطع
شو ہے اِس گھر کے آنگن میں ظفرؔ کچھ روز اور
گنبدِ دل کو کسی دن بے صدا کر جائوں گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں