کورونا سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر
پر عمل ضروری ہے: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''کورونا سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل ضروری ہے‘‘ اور یہ میرے کئی ہفتوں کے سوچ و بچار کا نتیجہ ہے اور میں نے ضروری سمجھا ہے کہ عوام کو بھی اس سے آگاہ کر دوں بلکہ اس نہایت قیمتی انکشاف پر میں حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے داد کا طلبگار ہوں کیونکہ پہلے کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کورونا سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، جبکہ اس کیلئے مجھے گہری تحقیق سے گزرنا پڑا ہے اور وزیر ہوتے ہوئے میرا فرض تھا کہ اپنی تحقیق کے اس نتیجے کو عوام تک بھی پہنچا دوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
آئیں مل کر پی ٹی آئی کی شکست کا جشن منائیں: ناصر حسین شاہ
وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے مریم نواز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ ''آئیں مل کر پی ٹی آئی کی شکست کا جشن منائیں‘‘ جبکہ اس میں آپ کی شکست کا جشن بھی شامل ہو گا یعنی ایک پنتھ دو کاج اور اس طرح آپ کا قیمتی وقت بھی بچ جائے گا کیونکہ ملک عزیز میں وقت ہی ایک ایسی چیز ہے جسے ہم بچانے کے بجائے اسے بے دریغ ضائع کر دیا کرتے ہیں جبکہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اس گہما گہمی میں آپ کو اپنی شکست کا غم بھی بھول جائے گا اور یہ فتح ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری تھی کہ اس سے ہماری حکومت کا بھرم بھی رہ گیا جس کیلئے خاص انتظامات کیے گئے تھے۔ آپ اگلے روز مریم نواز کے ٹویٹ پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے تھے۔
عوام وزیراعظم کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے : کامران مرتضیٰ
جے یو آئی ایف کے رہنما کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ ''عوام وزیراعظم کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں‘‘ جبکہ ہم اپنے سربراہ کی غلطیوں کا جو خمیازہ بھگت رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو انہوں نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اور جس کام کا آغاز انہوں نے کر رکھا ہے وہ سرے سے ہی نا ممکن ہے اور جس سے ان کی اپنی صحت پر بھی برا اثر پڑا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
حزب اختلاف والے کرپٹ باپ کو
بچانے میں مصروف ہیں: حافظ حسین احمد
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے رہنما اور سینئر پارلیمنٹرین حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ''حزب اختلاف کرپٹ باپ کو بچانے میں مصروف ہے‘‘ کیونکہ اپنے اپنے باپ کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں اور جب تک انہیں بچایا نہ جا سکے یہ کام ممکن نہیں ہو سکتا، اگرچہ ان بزرگوں کا نام پہلے ہی اس قدر روشن ہے کہ اس کا اجالا ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے تاہم یہ اجالا ان کے ناموں پر نہیں پڑ رہا اس لیے انہیں زیادہ تگ و دوکرنا پڑ رہی ہے اور وہ مکمل طور پر اندھیرے میں ہیں، بلکہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس اندھیرے میں مبتلا کر رہے ہیں جو کہ ایک بے حد تشویشناک بات ہے حالانکہ دوسروں کا کچھ زیادہ قصور بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کاغذ پہ مہ و سال
یہ ہمارے دیرینہ کرم فرما اقبال پیرزادہ کا مجموعۂ غزلیات ہے جسے اکادمی بازیافت کراچی نے شائع کیا ہے۔ انتساب شاد بہٹوی، ڈاکٹر الیاس عشقی، پروفیسر مختار کریمی، جناب نسیم درانی، پروفیسر سحر انصاری، جناب محمود صدیقی، پروفیسر حسن سجاد، جناب اقبال حیدر، جناب تاجدار عادل اور امین اختر جیسے مخلص اور معتبر صاحبانِ علم و ہنر کے نام ہے۔ پسِ سرِ ورق شاعر کی تصویر کے علاوہ محسن بھوپالی اور محسن احسان کی توصیفی آراء درج ہیں جبکہ اندرون سرورق یہی کام حسن منظر اور ڈاکٹر ضیاء الحسن نے سر انجام دیا ہے۔ دیباچہ ڈاکٹر عتیق جیلانی کا تحریر کردہ ہے، نمونہ کلام:
سایہ تو مانگتے ہیں مگر سوچتے نہیں
سورج ہو عین سر پہ تو دیوار کیا کرے
تم بادشاہِ وقت تھے، کٹوا دیئے تھے ہاتھ
اب قصر گر رہا ہے تو معمار کیا کرے
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
لوری
یہ سارے کھیت جنگل پھول میداں
یہ رستے خاک میں لیٹے ہوئے
حد ِنظر سے تا ابد
اک دھند کی چادر میں سہمی بستیاں
اور وقت کا پھیلائو۔۔۔۔
اس معمورۂ ظلمت کے اندر
ہمارے زرد رو ناموں کے تارے
ٹوٹتے ہیں
اور مدھم سی لکیریں
چھوڑ جاتے ہیں
میں اس ابہام سے خوش ہوں
تمہارے نام سے خوش ہوں
ہمارے ساتھ جو کچھ وقت کر جاتا ہے
میں اس کام سے خوش ہوں!
آج کا مطلع
جو پڑا ہی نہیں ہے دل پر داغ
میں اُسی کا لگا رہا ہوں سراغ