کورونا بارے چند ہفتے پاکستان کے لیے نازک ہیں: اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''کورونا بارے چند ہفتے پاکستان کے لیے نازک ہیں‘‘ اگرچہ پاکستان سابقہ سینکڑوں‘ ہزاروں ہفتوں سے نازک صورت حال سے دو چار ہے اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ عوام اس کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ اب تو کورونا سے بھی لوگ کافی مانوس ہو چکے ہیں اور اسے زندگی کا لازمی حصہ سمجھنے لگے ہیں اور ماسک کی تو انہیں اتنی عادت ہو چکی ہے کہ ماسک نہ بھی پہنا ہو تو بار بار ماسک کو درست کرنے کے لیے منہ پر ہاتھ پھیر کر دیکھتے رہتے ہیں ۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسری پر
لفظی گولہ باری بند کریں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسری پر لفظی گولہ باری بند کریں‘‘ کیونکہ اگر کرنی ہے تو اصلی گولہ باری کریں، خواہ مخواہ لفظوں کا ضیاع کیوں کر رہے ہیں جبکہ اسی باہمی گولہ باری کی وجہ سے پی ڈی ایم کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی اور ہم واپس اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم عوام میں نکلتا ہے تو شہر میں کرفیو نہیں لگا ہوتا: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''منتخب وزیراعظم عوام میں نکلتا ہے تو شہر میں کرفیو نہیں لگا ہوتا‘‘ چاہے وہ وزیراعظم کرپشن کیسز میں سزا یافتہ ہو، اس پر منی لانڈرنگ، کک بیکس اور کمیشن خوری کے الزامات ہوں یا وہ ملکی وسائل کی لوٹ مار سے اندرون و بیرون ملک اربوں ڈالر کے اثاثے بنا چکا ہو، اسمبلی اور عدالت میں جھوٹ بول کر اسے سیاسی بیان کہتا ہو، ترقی کے لیے کرپشن کو لازمی قرار دے چکا ہو، اور منتخب بھی اسی طرح سے ہوا ہو جیسے وہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہو۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہی تھیں۔
حکومت عوام کو جوابدہ ہے تو بیورو کریسی بھی ہے: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''حکومت عوام کو جوابدہ ہے تو بیورو کریسی بھی ہے‘‘ جبکہ بیورو کریسی کی جوابدہی ہم موقع پر ہی کر لیتے ہیں اور معمولی جواب طلبی سے نہ حکومت کی تسلی ہوتی ہے نہ بیورو کریسی کی جبکہ کام جو بھی ہو، تسلی بخش طریقے ہی سے ہونا چاہیے، چنانچہ سیالکوٹ والے واقعہ سے میری تسلی تو ہو گئی تھی اگرچہ بعد میں اپنے الفاظ کو سخت قرار دیتے ہوئے میں نے اس پر برے دل سے معذرت کا اظہار بھی کیا مگر یہ معذرت بھی درحقیقت منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے تھی۔آپ اگلے روز ڈی جی پی آر میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ماہ نامہ الحمرا
اس جریدے کا تازہ شمارہ حسبِ معمول اپنے شیڈول کے مطابق شائع ہو گیا ہے جس میں ملک عزیز کی معتبر اور اہم شخصیات کی نگارشات شامل ہیں، خوبصورت ٹائٹل لیجنڈری آرٹسٹ اسلم کمال کے قلم کا نتیجہ ہے۔ حصۂ مضامین کے تخلیق کاروں میں پروفیسر فتح محمد ملک، محمد اکرام چغتائی، جمیل یوسف، بشریٰ رحمن اور ڈاکٹر اے بی اشرف‘ گوشۂ اقبال کے لکھنے والوں میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر اسلم انصاری، مسلم شمیم اور ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نمایاں ہیں، منظومات پیش کرنے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جن میں حسن نثار کے نام نذیر قیصر کی طویل غزل بھی شامل ہے۔ افسانے، سفرنامے، گوشہ مزاح اور تبصرے ان کے علاوہ ہیں۔ شروع کے دو صفحات پر علامہ اقبال سمیت بعض اہم لکھنے والوں کی آرٹ پیپر پر تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ آخر میں قارئین کے خطوط کا معمول کا ایک سلسلہ ہے۔
اور‘ اب پروفیسر نواب نقوی کی شاعری:
جسے گماں تھا، جسے یقیں تھا وہ میں نہیں تھا
ابھی ابھی جو یہیں کہیں تھا وہ میں نہیں تھا
میں تیرے پیکر میں کر رہا تھا تلاش اپنی
جو تیرے دل کے بہت قریں تھا وہ میں نہیں تھا
ترا کرم تھا کہ نعمتِ غم مجھے عطا کی
جسے گلہ تھا دلِ حزیں تھا وہ میں نہیں تھا
نمائشِ داغِ سجدہ پر ہوں بڑا پشیماں
وہ شخص جو سربسر جبیں تھا وہ میں نہیں تھا
مرا شرف تھا درِ علی کا فقیر ہونا
گدا گرِ کوئے آن و ایں تھا وہ میں نہیں تھا
٭......٭......٭
دو گھڑی کی اور مہلت ہے ذرا جلدی کرو
اتنی فرصت بھی غنیمت ہے ذرا جلدی کرو
روٹھ کر جانے لگی دوشیزۂ عمرِ رواں
آخری بوسے کی چاہت ہے ذرا جلدی کرو
بادۂ سرمستِ چشم گُل رخاں کے فیض سے
زندگی میں کچھ حرارت ہے ذرا جلدی کرو
روح کے آتش کدے میں پھر وہی رقصِ شرر
پھر وہی سامانِ وحشت ہے ذرا جلدی کرو
پھر جمالِ یار ہے آئینۂ حسنِ خیال
پھر وہی کثرت میں وحدت ہے ذرا جلدی کرو
آج کا مقطع
میں اگر اُس کی طرف دیکھ رہا ہوں تو‘ ظفرؔ
اپنے حصے کی محبت کے لیے دیکھتا ہوں