وزیراعظم تین سال سے این آر او نہیں دوں
گا کی گردان پڑھ رہے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم تین سال سے چور، ڈاکو اور این آر او نہیں دوں گا کی گردان پڑھ رہے ہیں‘‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھائی صاحب لندن میں مستقل طور پر قیام پذیر ہو چکے ہیں اور میں اڑان بھرنے ہی والا ہوں، اور جہاں تک واپسی کا سوال ہے تو اگر وہاں بیٹھ کر ہی ہمیں خاطر خواہ ووٹ پڑ رہے ہیں تو واپس آ کر ہمیں مقدمات کا سامنا کرنے اور سزائیں بھگتنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ بھائی صاحب کا کسی نے کیا بگاڑ لیا ہے نیز بھلا ہو مہنگائی کا جس نے حکومت کا بینڈ ہی بجا دیا ہے حالانکہ اس کی وجوہات میں ہمارا کردار بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی رہنمائوں کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ہماری سمت درست اور نیت نیک ہے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہماری سمت درست اور نیت نیک ہے‘‘ اور اگر مہنگائی میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے تو اس میں سمت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ مہنگائی کی ایک اپنی سمت ہے جسے وہ اختیار کیے ہوئے ہے اور جوہماری سمت کے متوازی اور برابر برابر چل رہی ہے اور دونوں میں ایک صحتمندانہ مقابلہ ہے، اور یہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہوتی رہتی ہیں جو کہ بجائے خود ایک قابلِ دید نظارہ ہوتا ہے اور جہاں تک نیت کا سوال ہے تو اس کا حال بھی صرف اللہ کو ہی معلوم ہوتا ہے، میرے جیسا عاجز اس کے علم کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اپنے آفس میں ارکان اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔
منی لانڈرنگ کے الزامات کنٹینر پر ہی رہ گئے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''اربوں کی منی لانڈرنگ کے الزامات کنٹینر پر ہی رہ گئے‘‘ اور شہباز شریف اپنے خاندان کی مستقل رہائش گاہ کی طرف پرواز کرنے والے ہیں اور اب دونوں بھائی مل کر قوم کی رہنمائی وہیں بیٹھ کر کیا کریں گے کیونکہ عوام مقامی رہنمائی کے زیادہ قائل نہیں اور اپنے لیڈروں کا عید کے چاند کی طرح دور سے ہی نظارہ کر کے جب چاہیں گے عید منا لیا کریں گے ۔ آپ گلے روز لاہور میں ایک بیان پر رد عمل کا اظہار کر رہی تھیں۔
وفاقی حکومت نے سندھ میں پانی کا بحران پیدا کر دیا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وفاقی حکومت نے سندھ میں پانی کا بحران پیدا کر دیا‘‘ اور ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں وہ ہمارے سمندر پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش نہ کرے جس کی ہم پر زور مذمت اور اس کے خلاف احتجاج بھی کریں گے جس کی ایک صورت لانگ مارچ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اگر ہم پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں شریک نہیں ہو سکے تو اس لانگ مارچ سے ہمیں کون روک سکتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے ہم پی ڈی ایم سے کہہ سکیں گے کہ ہم اپنے لانگ مارچ میں مصروف ہیں ہم ان کے لانگ مارچ کو کیا کریں جبکہ اول خویش اور بعد درویش کا مقولہ انہوں نے بھی سن رکھا ہوگا۔ آپ اگلے روز کراچی میں سفیروں کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کر رہے تھے۔
آثارِ ہُنر (ولی دکنی تا احمد فراز)
یہ ہمارے دوست حسن عسکری کاظمی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے احمد فراز تک اردو شاعری کے فن کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انتساب اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ، طلبہ اور طالبات کے نام ہے، قاری سے مکالمہ کے عنوان سے انہوں نے پیش لفظ خود لکھا ہے۔ کتاب کے سرورق پر اکثر شعرا کی تصاویر چھاپی گئی ہیں۔ شعرا کے علاوہ نثری ادیبوں کا تذکرہ بھی اس کتاب میں موجود ہے جن میں سرسید احمد خاں، بانو قدسیہ اور اشفاق احمد شامل ہیں۔ پسِ سرورق مصنف کی دیگر تصانیف کی تفصیل درج ہیں، نیز خورشید رضوی صاحب کی مختصر رائے بھی شامل ہے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
ایک چہرہ
میرے ماتھے کی چمک میں ہے
کسی اور زمانے کی جھلک
میرے ہونٹوں پہ لرزتے ہیں
کسی اور ہی دل کے نغمے
میرے کاندھے پہ چہکتے ہیں
کسی اور زمیں کے پنچھی۔۔۔۔
دور افتادہ کسی بستی میں
بادلوں میں کہیں
برفیلی ہوائوں سے لرزتے ہوئے دروازوں میں
یاد کرتا ہے مجھے
ایک چہرہ کوئی میرے جیسا
یا پھر آنکھیں ہیں کوئی، گہرے سمندر جیسی
جن میں بہتا چلا جاتا ہے، وہ چہرہ
کسی ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح
یا وہ چہرہ ہے کہیں مٹی میں
پاس آتا ہے، بلاتا ہے مجھے
مجھ سے ملتا ہے نہ ملنے کی طرح
کسی آئندہ زمانے کی تھکن کے مانند
عہدِ رفتہ کی جھلک کی صورت
جانے اس چہرے کی پہچان ہے کیا
جانے اس کا، یا مرا نام ہے کیا؟؟
آج کا مطلع
میں شعر بھی لکھوں گا وکالت بھی کروں گا
لازم نہیں یہ بات کہ محنت بھی کروں گا