"ZIC" (space) message & send to 7575

دھواں چھوڑتی کھڑکھڑاتی گاڑیاں اور بلیوں کا کاروبار وغیرہ

کسی صاحب نے ایک نہایت گئی گزری اور کھٹارہ قسم کی گاڑی بینک کے سامنے روکی اور باہر کھڑے نگرانی کرنے والے شخص کو یہ کہہ کر اندر چلے گئے کہ اس کا ذرا دھیان رکھنا۔ بینک سے فارغ ہو کر وہ صاحب باہر آئے اور اس شخص کے ہتھیلی پر دس روپے کا نوٹ رکھ دیا۔ نہیں صاحب! پورے پچاس روپے دیجئے! وہ شخص بولا۔ ''لیکن تمہارا معاوضہ تودس روپے بنتا ہے، بقایا 40روپے کس بات کے؟‘‘ وہ صاحب بولے۔ ''ٹھیک ہے، میری مزدوری تو دس روپے ہی ہے لیکن باقی چالیس روپے میں اپنی ''بے عزتی‘‘ کے مانگ رہا ہوں کیونکہ ہرگزرنے والا شخص یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ گاڑی میری ہے‘‘ وہ بولا۔
گوجرانوالہ میں کھڑکھڑاتی اوردھواں چھوڑتی گاڑیوں کو بھی فٹنس سرٹیفکیٹ مل جانے کی خبر پڑھ کر ان کے مالکان کیلئے ہمدردی کے جذبات ہمارے دل میں پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ انہیں ان گاڑیوں کا دھیان رکھنے والے مزدوری پیشہ لوگوں کو روزانہ دن میں کئی کئی بار پانچ گنا معاوضہ دینا پڑتا ہوگا؛ چنانچہ اس سلسلے میں ہماری تجویز یہ ہے کہ ہر روز اتنا خرچہ کرنے کے بجائے یہ حضرات ایک دھیان رکھنے والا بھی مستقل طور پر گاڑی کے ساتھ رکھا کریں۔ البتہ جہاں تک کھڑکھڑانے کاتعلق ہے تو اس پر کسی کو پریشان ہونے کی کیاضرورت بلکہ یہ خوبی تو مالک کو ایک سہولت مہیا کرتی ہے کہ اسے ہارن بجانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور دُور سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ گاڑی آ رہی ہے جبکہ ہسپتالوں کے باہر بطورِ خاص یہ ہدایت لکھی ہوتی ہے کہ یہاں ہارن بجانا منع ہے‘ اس طرح یہ کھڑکھڑاہٹ مفت میں ہارن کا کام بھی کر رہی ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے جب اپنی کھڑکھڑاتی اور دُھواں چھوڑتی گاڑی ٹول ٹیکس پر روکی تو آواز آئی: ''25روپے‘‘۔ وہ صاحب یہ کہتے ہوئے گاڑی سے اتر گئے کہ پیچھے سے بس آ رہی ہے‘ میں اس پر بیٹھ کر چلا جاؤں گا۔
اور یہ جو کسی نے کہا ہے کہ ''نیا نو دن‘ پرانا سو دن‘‘ تو یہ بھی غالباً گاڑیوں ہی کے بارے میں کہا گیا ہے کیونکہ نئی گاڑی آپ کے پاس تھوڑے ہی دن نکالتی ہے کیونکہ گاڑی اگر اچھی ہو تو اس کے خریدار بھی پیدا ہو جاتے ہیں جبکہ پرانی گاڑی آپ کے پاس مزید پرانی ہوتی رہتی ہے اور اسے فروخت بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن آپ اسے اتنی بھی بیکارچیز نہ سمجھیں کیونکہ اگر اسے فروخت کرنا ہو تو اس کا بھی ایک طریقہ موجود ہے۔
ایک صاحب پرانے نوادرات کی ایک دکان میں داخل ہوئے اور منیجر کے پاس ہی ٹوٹے ہوئے کناروں والے ایک پیالے پر ان کی نظر پڑی جس میں دودھ ڈال کر وہ ایک بلی کو پلا رہا تھا۔گاہک بولا: کیاآپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ ''کیوں نہیں‘‘ دکاندار بولا، لیکن یہ ایک بہت مہنگی نسل کی بلی ہے‘ تاہم گاہک کے اصرار پر منیجر نے بہت زیادہ قیمت بتائی، گاہک نے وہ بلی خرید لی۔ چلتے چلتے وہ بولا: اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں یہ ٹوٹا پھوٹا پیالہ ساتھ لے جا سکتا ہوں؟ ''جی نہیں! میں یہ پیالہ آپ کو نہیں دے سکتا‘‘ دکاندار نے جواب دیا۔ گاہک نے اس کی وجہ پوچھی تو دکاندار نے کہا، میں اس پیالے کی وجہ سے اب تک 500بلیاں فروخت کر چکا ہوں۔
جہاں تک پرانی گاڑی کے دھواں چھوڑنے کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں پرانے اور نئے قسم کے سیاسی لیڈر اپنی تقریروں میں جتنا دھواں چھوڑتے ہیں، پرانی گاڑیاں تو اس کا تصور تک نہیں کر سکتیں، اور یہ نہ صرف دھواں چھوڑتے ہیں بلکہ کھڑکھڑاتے بھی ہیں اور سیاست میں باقاعدہ فٹنس سرٹیفکیٹ بھی حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں۔
ایک مرحوم ٹی وی اداکار ایک بار پیدل کہیں جا رہے تھے کہ کسی جاننے والے نے اپنی کھٹارا سی گاڑی ان کے برابر میں روک کر پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے۔ انہوں نے بتایا تو گاڑی والے صاحب بولے۔''میں بھی اسی طرف جا رہا ہوں، آئیے بیٹھئے میں آپ کو وہاں تک چھوڑتا ہوں‘‘۔ اس پر مرحوم نے گاڑی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا: ''نہیں، مجھے ذرا جلدی ہے!‘‘
اور‘ اب آخر میں محمد حنیف کی شاعری:
پھینکتا تھا جو ہمیشہ لب و رخسار پہ خاک
بیٹھ کر چھان رہا ہے وہ درِ یار پہ خاک
باغِ امکان میں رہتا تھا مزے سے اپنے
بادِ انکار نے ڈالی گلِ انکار پہ خاک
میں سمجھتا ہوں کہ وہ ڈال رہا ہے پانی
باغباں ڈال رہا ہے گل و گلزار پہ خاک
ایک نشے میں سمجھتا ہی نہیں ہوں یہ بات
خاک پر ہے مری دستار کہ دستار پہ خاک
وقت دشمن ہے جہاں بھر کی حسیں چیزوں کا
وقت نے ڈال دی ہر اک خطِ رخسار پہ خاک
میرا کردار تھا غصے میں بُرے آدمی کا
ڈال دی تیز ہوا نے مرے کردار پہ خاک
قافلے گزرے ہیں کچھ ایسے قبائل کے حنیفؔ
پڑ گئی شہر کے سارے در و دیوار پہ خاک
٭......٭......٭
اُٹھ کے بیٹھا بھی نہیں تھا ابھی بیماری سے
واسطہ آن پڑا ہے در و دیواری سے
ورنہ کچھ بھی نہیں موجود کا منظر نامہ
عالمِ خواب بھی ہے عالمِ بیداری سے
آج کا مطلع
محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر اظہار کیا کرتے
اسے بھی اس پریشانی سے ہم دوچار کیا کرتے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں