"ZIC" (space) message & send to 7575

میرا گھر میری جنت اور ابرار احمد

دنیا میںجنت چونکہ ہمیں گھر کی صورت ہی میں دستیاب ہوتی ہے اس لیے جنت حاصل کرنے کے لیے ہمیں نیکیاں وغیرہ کمانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ہم دعا کرتے ہیں کہ مر کر بھی ہمیں رہنے کے لیے یہی گھر نصیب ہو اور چونکہ چڑیوں کے لیے چڑیا گھر اور گھنٹوں کے لیے گھنٹہ گھر ہوتے ہیں اس لیے گھر کو ہم آدمی گھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ گھر تو ویسے کتے کا بھی ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ گھر کا ہوتا ہے نہ گھاٹ کا۔
چھت
یہ ایک خاصی کثیر المقاصد قسم کی چیز ہے یعنی اس پر چڑھ کر پتنگ اڑانے کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں جھانکا بھی جا تا ہے جبکہ محبوبہ کے گھر تک پہنچنے کے لیے اس کی چھت سے کودا بھی جا سکتا ہے کہ بقول شاعر؎
کودا کوئی یوں چھت سے تری دھم سے نہ ہوگا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہوگا
بڑی چھت کو چھت اور چھوٹی کو چھتری کہتے ہیں۔ دونوں آپ کو دھوپ اور بارش سے بچاتی ہیں۔ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بنوانے جیسی فضول خرچی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر چڑھنے اترنے کے لیے پائپ موجود ہوں تو سیڑھیوں کی کیا ضرورت ہے۔
باتھ روم
باتھ روم اب باتھ روم نہیں بلکہ صرف واش روم ہو کر رہ گئے ہیں یعنی اس میں نہایا نہیں جا سکتا صرف ہاتھ دھوئے جا سکتے ہیں جبکہ ویسے بھی فی زمانہ یعنی کارونا کے دنوں میں زیادہ زور نہانے پر نہیں بلکہ ہاتھ دھونے پر ہے جو کہ بیس سیکنڈز تک دھونا ضروری ہوتے ہیں یعنی اگر گھر کے ہر فرد کو ہر بیس سیکنڈ کے بعد ہاتھ دھونا پڑیں تو قطارمیں کھڑا ہونا پڑے گا جبکہ نہانے کے لیے مسجد کا غسل خانہ کافی ہے یعنی غسل کا غسل اور ثواب کا ثواب، اسے ایک پنتھ اور دو کاج بھی کہتے ہیں۔
بیڈ روم
اس میں صرف بیڈز رکھے جاتے ہیں یعنی یہ سونے کا کمرہ نہیں ہوتا، سونا ہو تو لائونج میں میٹرس بچھا کر بھی سو سکتے ہیں کیونکہ اگر سونے کا کمرہ ہو تو جاگنے کا کمرہ بھی ہو، کیونکہ سونے کے بعد جاگنا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ آپ سوتے ہی رہ جائیں گے، سونے کی ویسے تو کوئی ضرورت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ آپ خواب وغیرہ بھی دیکھنا چاہتے ہوں اگرچہ خواب جاگنے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جن کی تعبیر کا بھی آپ کو انتظار نہیں ہوتا۔ البتہ کوئی مہمان وغیرہ نہ ہو تو آپ مہمان خانے میں بھی سو سکتے ہیں۔
ڈرائنگ روم
یہ صرف ڈرائنگ کے لیے ہوتے ہیں؛ چنانچہ ان میں کاغذ، پنسل، مٹانے والا ربڑ اور گتّہ وغیرہ موجود رہنے چاہئیں تا کہ ڈرائنگ میں دلچسپی رکھنے والے اپنا شوق پورا کر سکیں، اس کے علاوہ یہ کھینچا تانی کے بھی کام آ سکتے ہیں۔
چار دیواری
اوپر تلے چار دیواریں اگر اکٹھی کھڑی کی جا ئیں تو اسے چار دیواری کہتے ہیں جو ہر گھر کے لیے ضروری ہوتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ چادر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ البتہ دیوار کے قریب کوئی بات کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن وہ بوقت ضرورت مروڑے نہیں جا سکتے۔ یہ پھاندنے کے بھی کام آتی ہیں مثلاً بقول شاعر؎
دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا
جب دھم سے آ کہوں گا حضرات سلام میرا
دروازہ
گھر میں دروازے کے ساتھ ساتھ ایک چور دروازہ بھی ہوتا ہے جو صرف چوروں کی سہولت کے لیے رکھا جاتا ہے اور یہ ہر وقت کھلا بھی رہتا ہے۔ دروازے کی ایک دہلیز بھی ہوتی ہے جس پر حکومت انصاف یا دیگر سہولیات رکھا کرتی ہے، چھوٹے دروازے کو کھڑکی بھی کہتے ہیں، یہ بھی چند حضرات کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ساز و سامان
گھر کے ساز و سامان کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ اسے باندھ کر ہی رکھا جائے کیونکہ گھر عموماً کرائے کا ہوتا ہے اور کرائے کی عدم ادائیگی کی صورت میں آپ کو کسی وقت بھی نقل مکانی کرنا پڑ سکتی ہے جبکہ نقل مکانی کا مطلب سامان کو سڑک پر رکھنا بھی ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ آپ کو کرائے کا گھر فوراً ہی دستیاب ہو جائے۔ اسے دور اندیشی بھی کہتے ہیں۔
ماہنامہ ادبِ لطیف لاہور
اپنے دورِ جدید کا یہ چوتھا شمارہ ہے جسے حسین مجروح، مظہر سلیم مجوکہ اور شہزاد نیّر شائع کرتے ہیں اور جس کا خوبصورت اور خیال انگیز ٹائٹل لیجنڈری آرٹسٹ نیّر علی دادا نے بنایا ہے۔ ادب اور متوازی ادب کے عنوان سے اداریہ حسین مجروح اور بار ِامانت کے عنوان سے پیش لفظ معاونین کے قلم سے ہے۔ لکھنے والوں میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر قاضی عابد، ڈاکٹر امجد طفیل اور اظہر حسین حصۂ مضامین جبکہ نیلم احمد بشیر، نجیبہ عارفہ، مبین مرزا، زاہد حسن اور دیگران افسانے میں، یاد کاری اصغر ندیم سعید، طاہرہ اقبال،قند مکرر کے عنوان سے شاعری اور عریانی پر مضمون عبادت بریلوی اور کنج درویش کے عنوان سے ڈاکٹر سید عامر سہیل رقم طراز ہیں، تراجم علامہ محسن فیض کائناتی شاہدہ حسن، ڈاکٹر جواز جعفری اور مزاحیہ شاعری اطہر شاہ خان جیدی کے قلم سے ہیں۔ شعراء میں نذیر قیصر، صابر ظفر، غلام حسین، ساجد، سرمد صہبائی، ابرار احمد، سلیم شہزاد، معین نظامی، ایوب خالد، خالد اقبال ، قمر رضا شہزاد اور دیگران شامل ہیں۔
اور ، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
یادوں اور بادلوں میں
چاندنی میں آنکھیں بھیگ گئی ہیں
شاید کہیں کچھ ہوا ہے
کوئی دیوار گر گئی ہے
یا رونے کی آواز آ رہی ہے
کوئی کھلونے بیچ رہا ہے
بچے سکول جا رہے ہیں
یا دروازے پر دستک ہو رہی ہے
شاید اس لڑکی نے زہر کھا لیا ہے
یا پھر وہ بوڑھا پاگل ہو گیا ہے
دیواروں میں پانی سویا ہوا ہے
رات کے دالان میں موتیے کے پھول کھلے ہیں
یا پھر درختوں میں ہوا چل رہی ہے
یادوں اور بادلوں میں گھومنے سے
آدمی بہت دور نکل جاتا ہے
شاید ہوا تیز ہو گئی ہے
یا پھر بادل منڈیروں تک جھک آئے ہیں
اندھیرے میں ڈوبتے ہوئے ہاتھ
دکھائی دیتے ہیں
''تم کون ہو؟‘‘
حالانکہ اس سے کیا ہوتا ہے
بارشوں میں مٹی بیٹھ جاتی ہے
خواب دیکھنے اور
نیند میں چلنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں
اور پھر میں یہاں سے چلا جائوں گا
اپنے خوابوں کے ہمراہ
نیند کے جنگل میں
یا سو رہوں گا۔۔۔۔ یہیں کہیں
تمہارے آس پاس۔۔۔۔
آج کا مطلع
دشت کی وحشت کو ہم نے چھوڑکر گھر رکھ لیا
اور تیرے باب میں اس دل پہ پتھر رکھ لیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں