حکمران ٹھنڈا کر کے کھائیں، دو روز بعد پھر آئوں گا: چودھری نثار
سابق وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خاں نے کہا ہے کہ ''حکمران ٹھنڈا کر کے کھائیں، دو روز بعد پھر آئوں گا‘‘ جیسا کہ میں اپنی اسمبلی رکنیت ٹھنڈی کر کے کھانے لگا ہوں وہ بھی اڑھائی سال میں بڑی مشکل سے ٹھنڈی ہوئی ہے اور دیر اس لیے ہوئی ہے کہ یہ کھیر ٹیڑھی بھی تھی؛ تاہم میرے حلف اٹھانے سے کسی کو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرا کوئی پتا نہیں کہ کس طرف کو چل نکلوں کیونکہ نواز لیگ میں ایک اچھی خاصی لابی میرے خلاف ہے جبکہ ترین گروپ بھی میری طرف دیکھ رہا ہے، اگرچہ ان کے اپنے حالات روز بروز مخدوش ہوتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم ان سے خوب اچھے طریقے سے نمٹ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے احاطہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ترین سے انتقام لیں گے نہ رعایت دی جائے گی: اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''جہانگیر ترین سے انتقام لیں گے نہ رعایت دی جائے گی‘‘ کیونکہ اگر رعایت نہ دی تو انتقام لینے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اس لیے اس گروپ کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ گروپ بھی اس وقت تک قائم رہے گا جب تک عشائیے اور ضیافتیں جاری رہیں گی اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنی کمائی کا کتنا فیصد ان پر خرچ کیا جاتا ہے اور وزیراعظم صاحب نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ جب انہوں نے اپوزیشن سے کوئی انتقام نہیں لیا تو ترین صاحب سے کیوں لیں گے، کیونکہ اپوزیشن کو این آر او نہ دینا کوئی انتقام نہیں کہ وہ وزیراعظم کے پاس ہے ہی نہیں۔ آپ اگلے روز گھوٹکی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
چودھری نثار نواز لیگ میں نیا گروپ بنا
سکتے ہیں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''چودھری نثار نواز لیگ میں نیا گروپ بنا سکتے ہیں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘‘ اور اگر نہ بھی بنا رہے ہوں تو ہماری طرف سے اسے ایک عاجزانہ اور مخلصانہ تجویز سمجھیں کیونکہ پارٹی میں جتنے گروپ ہوں، اتنے ہی باعثِ برکت ہوتے ہیں اور پارٹی میں رونق لگی رہتی ہے جیسے کہ ہماری پارٹی میں ایک نئی بہار آ چکی ہے، بلکہ اس کے علاوہ مزید گروپ بھی ہیں جو ابھی زیرِ سطح ہیں اور سطح پر آنے کی تگ و دو کر رہے ہیں اور اگر وہ پارٹی مفاد میں واقعی یہ کام کر گزرے تو ہماری طرف سے پیشگی مبارکباد بھی قبول کریں اور اسی سے ان کا حلف اٹھانا پارٹی میں ایک تازہ جھونکا ثابت ہو سکے گا۔ آپ راولپنڈی میں گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔
امریکا کو فضائی و زمینی حدود کے استعمال
کی اجازت نہیں دیں گے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''امریکا کو فضائی اور زمینی حدود کے استعمال کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ اور اگر حکومت نے یہ اجازت دے بھی دی تو ہم نہیں دیں گے، اس لیے امریکا ہم سے اس قسم کی درخواست کرنے کی زحمت ہی نہ کرے اور نہ ہی اس کے لیے کسی بیک ڈور چینل سے کوشش کرے،بلکہ اس ضمن میں پہلے جو معاہدے ہو چکے ہیں وہ بھی منسوخ سمجھے جائیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں جماعت اسلامی وسطی پنجاب نظم کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم کوئی دعویٰ یا وعدہ پورا نہیں کر سکے: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وزیراعظم کوئی دعویٰ یا وعدہ پورا نہیں کر سکے‘‘ کیونکہ یہ تقریباً نا ممکن ہوتا ہے، اس لیے ہم نے کوئی دعویٰ یا وعدہ نہیں کیا اور اپنے کام میں لگے رہے، کیونکہ آدمی وہ کام کرے جس میں کوئی فائدہ بھی ہو ورنہ سیاست اور اقتدار میں آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، اور ہم نے اس مقصد کو اپنی توقعات سے بڑھ کر پورا کیا ہے جبکہ صوبائی حکومت میں اسی حساب سے یہ شاندار مقصد پورا کرنے میں مصروف ہیں جبکہ اس کام کے لیے آئندہ میرا وزیراعظم بننے کا پکا ارادہ ہے کہ حالیہ عرصے میں جو کمی آ چکی ہے اسے پورا کر کے اگلی منزلوں کی طرف پیش قدمی کی جا سکے جس پر میں پوری طرح پُرامید ہوں۔ آپ اگلے روز کراچی سے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
تنقیدی زاویے
یہ ہمارے دوست شاعر علی شاعر کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں مختلف ادبا کے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ آغاز میں حال ہی میں وفات پانے والے شہرۂ آفاق نقاد شمس الرحمن فاروقی کی ایک تحریر سے اقتباس درج کیا گیا ہے جو اس طرح سے ہے: ادب کا کوئی مطالعہ زبان کے عمل کا مطالعہ کیے بغیر مکمل اور معنی خیز نہیں ہو سکتا اور اس کے مطالعے میں مشرقی تنقید کے بہت سے اصول نہ صرف بہت کارآمد ہیں بلکہ ان کی اساس جن تصورات پر ہے وہ مشرق و مغرب میں یکساں جاری و ساری ہیں۔ کتاب کسی دیباچے یا انتساب کے بغیر ہے۔ 320 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے آخری صفحات میں مصنف کا تعارف اور تصانیف کی فہرست درج ہے۔ کتاب میں 18 تنقیدی مضامین اور تین انٹرویوز ہیں جو مصنف نے خود کیے ہیں، کتاب کو بڑی تقطیع پر شائع کیا گیا ہے۔ تنقید سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے یہ کتاب ایک افادیت رکھتی ہے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
مٹی اڑا کے گائوں کی اک کار چل پڑی
پھر یاد ہی نہیں کہاں رفتار چل پڑی
ہلتا ہی رہ گیا پسِ سبزہ کسی کا ہاتھ
پگڈنڈی کن فضائوں کو یکبار چل پڑی
تُو تُو نہیں رہا کہیں میں میں نہیں رہا
زر کی روش اٹھا کے جو دیوار چل پڑی
اندر تھی کوئی اور خبر، سرخی کی خبر
اور خلق پڑھنے جھوٹ کے اخبار چل پڑی
سپنوں نے مجھ کو شام سے باندھا اور اس کے بعد
اڑنے کو آسمان پہ یہ ڈار چل پڑی
رکھی نہ ہم نے زور زبردستی طبع سے
ہر بار رک گئی کہیں ہر بار چل پڑی
ہر لمحہ جھیلنا تھا مگر آنگنوں کی راکھ
دل میں نویدؔ! چھوڑ کے انبار چل پڑی
آج کا مطلع
یہ میری اپنی ہمت ہے جو میں دنیا میں رہتا ہوں
مگرمچھ سے نہیں بنتی مگر دریا میں رہتا ہوں