"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ابرار احمد کی نظم

جب کہتا تھا گھبرانا نہیں، عوام گھبرا جاتے تھے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''جب کہتا تھا گھبرانا نہیں، عوام گھبرا جاتے تھے‘‘ حتیٰ کہ انہیں گھبرانے کی عادت پڑ گئی بلکہ اگر وہ نہ گھبرائیں تو ان کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے، اس لیے صحت کارڈ کا پروگرام شروع کیا گیا ہے تا کہ عوام کی طبیعت ٹھیک رہے حالانکہ ان کی طبیعت کو ٹھیک نہیں بلکہ درست ہونا چاہیے جو خاصی حد تک ہو بھی چکی ہے اور اگر حکومتی میعاد پوری کرنے کا موقع ملا تو ان میں طبیعت باقی نہیں رہے گی، صرف درستی رہ جائے گی اور اگر وہ میری ہر بات غور سے سنتے تو اب تک یہ مرحلہ بھی سر کر چکے ہوتے۔ آپ اگلے روز رشکئی ترجیحی خصوصی اقتصادی زون کا افتتاح کر رہے تھے۔
ایٹمی دھماکوں کا سہرا میرے، ظفر الحق
اور گوہر ایوب کے سر ہے: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ایٹمی دھماکوں کا سہرا میرے، ظفر الحق اور گوہر ایوب کے سر ہے‘‘ اور دوسرے دونوں کا نام بھی میں نے مروتاً اور تکلفاً ہی لیا ہے ورنہ یہ سراسر خاکسار کی کوششوں کا نتیجہ تھا، اگرچہ میں فی الحال اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتا تاہم میں ایک ذمہ دار آدمی ہوں کیونکہ ملک میں جو بھی ایسا ویسا کام ہوتا ہے میرے ذمہ لگا دیا جاتا ہے اور میں مزید ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے قبول بھی کر لیتا ہوں بلکہ مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ پاکستان بنانے کا سہرا قائداعظمؒ کے ساتھ ساتھ میرے سر بھی جاتاہے اور اگر لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں، میں نے یہ دونوں کام شہرت کے لیے نہیں کئے تھے۔ آپ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان چھین رہے ہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ''عمران خان عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان چھین رہے ہیں‘‘ اور یہ وہی روٹی، کپڑا اور مکان ہے جسے عوام کو فراہم کرنے کا اپنے منشور میں ہم نے وعدہ کیا تھا لیکن نہیں کر سکے تھے، کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ بالآخر عوام سے یہ سب کچھ اس حکومت نے چھین لینا ہے، اس لیے عوام کو ہماری دور اندیشی کی داد دینا چاہیے کیونکہ لیڈر وہی ہوتا ہے جو دور اندیش ہو ، جو حال اندیش بالکل نہ ہو بلکہ اگر صرف ماضی اندیش ہو تو اور بھی اچھا ہے؛ چنانچہ ہمارے سامنے ایک شاندار ماضی ہے جس پر ہم ہروقت فخر کرتے اور اپنی عقل و دانش کو داد دیتے رہتے ہیں اور کبھی اس پر غرور بھی نہیں کیا۔ آپ اگلے روز معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پارلیمانی لیڈروں کو دیے گئے میرے عشائیہ
کا پی ڈی ایم سے کوئی تعلق نہیں: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پارلیمانی لیڈروں کو دیے گئے میرے عشائیہ کا پی ڈی ایم سے کوئی تعلق نہیں‘‘ اور نہ ہی پی ڈی ایم والوں کو میرا کھانا ہضم ہو سکتا ہے کیونکہ وہ مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کا دیا گیا کھانا ہی شوق سے کھاتے ہیں کیونکہ ان کے بیانیے کے مقابلے میں میرا بیانیہ مفاہمانہ ہے جس سے ان کا ہاضمہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے‘وہ پی ڈی ایم کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن اُن کا بیانیہ پہلے ہی اپنی موت مر چکا ہے، اور بھائی صاحب بھی اس پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
28 مئی نواز شریف کی مٹی سے وفاکی
داستان ہمیشہ سناتا رہے گا: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''28 مئی نواز شریف کی مٹی سے وفاکی داستان ہمیشہ سناتا رہے گا‘‘ اور اب وہ اس مٹی کو تقریباً ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر لندن میں بیٹھ کر اس داستان کو ہی مکمل کر رہے ہیں بلکہ اس داستان کو جلی حروف میں رقم کرنے کیلئے میں اور چچا جان بھی لندن جانے کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں اور بقول شاعرع
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
لیکن حکومت اس وفاداری کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ آپ اگلے روز یومِ تکبیر کے موقع پر لاہور سے ایک ٹویٹر پیغام جاری کر رہی تھیں۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
آنکھ بھرا اندھیرا
چمکتی ہیں آنکھیں
بہت خوب صورت ہے بچہ
وہ جن بازوئوں میں
مچلتا ہے، لَو دے رہے ہیں
چہکنے لگے ہیں پرندے
درختوں میں پتے بھی ہلنے لگے ہیں
کہر لہراتے رنگوں میں
عورت کے اندر سے بہتی ہوئی روشنی میں
دمکنے لگی ہے یہ دنیا۔۔۔۔
وہ بچہ۔۔۔۔اسے دیکھے جاتا ہے
ہنستے، ہمکتے ہوئے
اس کی جانب لپکنے کو تیار۔۔۔۔
عورت بھی کچھ
زیر لب گنگنانے لگی ہے
لجاتے ہوئے۔۔۔۔
کسی سرخوشی میں
بڑھاتا ہے وہ ہاتھ اپنے
تو بچہ۔۔۔۔اچانک پلٹتا ہے
اور ماں کے سینے میں چھُپتا ہے
عورت سڑک پار کرتی ہے
تیزی سے، گھبرا کے
چلتی چلی جا رہی ہے
ادھر کوئی
آندھی سی چلتی ہے
دیوار گرتی ہے
شاعر کے دل میں
وہیں بیٹھ جاتا ہے
اور جوڑتا ہے یہ منظر
اندھیرے سے بھرتی ہوئی آنکھ میں!
آج کا مقطع
میں زیادہ ہوں بہت اُس کے لیے اب بھی، ظفرؔ
اور میرے لیے وہ سارے کا سارا کم ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں