عمران کا وژن آئندہ نسلوں کو سنوارنے کا ہے: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کا وژن آئندہ نسلوں کو سنوارنے کا ہے‘‘ بشرطیکہ آئندہ نسلیں کہیں پر دستیاب ہو گئیں کیونکہ مہنگائی نے موجودہ نسلوں کا جو حشر کر دیا ہے، آئندہ نسلوں کا پیدا ہونا ہی کافی مشکوک ہو چکا ہے چنانچہ وہ مہنگائی کے ذریعے موجودہ نسلوں کو عبرت حاصل کروا رہے ہیں تا کہ آئندہ نسلیں اپنے رسک پر ہی وجود میں آئیں کیونکہ ان کے وژن کو بھی اسی طریقے سے سنوارا جائے گا، اس لیے انہیں ابھی سے خبردار ہو جانا چاہیے، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ آپ اگلے روز عالمی یوم ماحولیات پر منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت گرانے کے لیے کہیں نہیں جا رہے: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے کے لیے کہیں نہیں جا رہے، عوام خود ہی نکال دیں گے‘‘ کیونکہ حکومت ہی حاتم طائی کی وہ قبر ہے جسے لات ماری جاتی ہے، اور اسی لیے ہم نے حکومت گرانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا اور پی ڈی ایم سے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ بھی عوام پر اعتماد کرے اور اسی کا انتظار کرے کیونکہ ہم نے کچھ دے دلا کر اس سے محفوظ رہنے کا انتظام کر لیا ہے اور اب عوام کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب اس قبر پر لات مارتے ہیں اور دیر اس لیے ہو رہی ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ حاتم طائی کی قبر کہاں پر واقع ہے، حتیٰ کہ ہمیں بھی معلوم نہیں ورنہ ہم عوام کو بتا دیتے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
بلاول بھٹو جھوٹ بولنے کی بجائے سوئس
بینکوں میں پڑا پیسہ واپس لائیں: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''بلاول بھٹو جھوٹ بولنے کے بجائے سوئس بینکوں میں پڑا پیسہ واپس لائیں‘‘ اور لا کر ہمارے بینکوں میں جمع کرائیں کیونکہ اس پر ہمارے بینکوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا پرائے بینکوں کا، کیونکہ یہاں بھی ان کا پیسہ اسی طرح محفوظ ہو گا جس طرح سوئس بینکوں میں ہے اس لیے ایک قومی لیڈر ہوتے ہوئے انہیں قومی مفاد کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ یہ پیسہ انہیں قوم ہی نے دیا ہے اس لیے اس پیسے پر قومی بینکوں کا حق سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ خون پسینے کی کمائی قومی بینکوں ہی کو زیب دیتی ہے اگرچہ خاکسار کا اپنا کوئی بینک نہیں ہے اور یہ گزارشات قومی جذبے کے تحت ہی پیش کی جا رہی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
کرائے کے ترجمانوں کا یہی مسئلہ ہے، مشکل
وقت پر فرار ہو جاتے ہیں:مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''کرائے کے ترجمانوں کا یہی مسئلہ ہے، مشکل وقت پڑنے پر فرار ہو جاتے ہیں‘‘ اور لطف یہ ہے کہ کرائے کے آقائوں کا بھی یہی مسئلہ ہے اور وہ بھی فرار ہونے میں کوئی وقت ضائع نہیں کرتے چاہے انہیں اس کیلئے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا پڑے حالانکہ یہ ان کا حق ہے کیونکہ اس بات کو وہ ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ قوم کی خدمت ملک میں بیٹھ کر احسن طریقے سے کی جا سکتی ہے یا باہر بیٹھ کر، وہ سمجھتے ہیں کہ قوم کی رہنمائی میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے اور وہ قوم اور ملک سے اسی طرح سرخرو ہوتے رہیں۔ آپ اگلے روز وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔
نام نہاد جمہوریت پسند کہہ رہے ہیں کہ حکومت گرا دو: عمران
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''نام نہاد جمہوریت پسند کہہ رہے ہیں کہ حکومت گرا دو‘‘ جبکہ انہیں معلوم نہیں کہ حکومت گرانے کیلئے نہیں بنائی گئی تھی کیونکہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو انہیں پی ڈی ایم وغیرہ کی شکل میں اتنی لمبی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی، وہ روز اول ہی یہ درخواست کر سکتے تھے ۔ آپ اگلے روز ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
امپائر سے مدد مانگنا ہماری طرزِ سیاست نہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''امپائر سے مدد مانگنا ہماری طرز سیاست نہیں‘‘ کیونکہ امپائر خود ہی کام کر رہا ہو تو اس سے مدد مانگنے کی کیا ضرورت ہے اور ہمارے قائد جب لاہور میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو اس وقت بھی اپنی مرضی کے امپائر کے بغیر میدان میں نہیں اترتے تھے کیونکہ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ اس نے آئوٹ ہونے پر بھی ہمیں آئوٹ قرار نہیں دینا، لیکن پھر ایک بے رحم امپائر ایسا آیا کہ اس نے آنکھیں ہی ماتھے پر رکھ لیں اور کھیل کے سارے اصول ہی تبدیل کر کے رکھ دیے اور غلط شاٹ مارتے ہی ہمارے کپتان کو آئوٹ قرار دے دیا اور ہم اسی وقت سے اس کی جان کو رو رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کر ر ہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
ہر روز
ہر روز کوئی قلم ٹوٹ جاتا ہے / کوئی آنکھ پتھرا جاتی ہے/ کوئی روزن بجھ جاتا ہے/ کوئی دہلیز اُکھڑ جاتی ہے/ کوئی سسکی جاگ اٹھتی ہے/ کوئی ہاتھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے/ کوئی دیوار گر جاتی ہے/ اور کوئی راستا بن جاتا ہے/ ہر روز کہیں کوئی چھت بیٹھ جاتی ہے/ کوئی درخت کٹ جاتا ہے/ کوئی خواب بکھر جاتا ہے/ کوئی آہٹ رخصت ہو جاتی ہے/ اور ایک آواز۔۔۔۔ اپنی آمد کا اعلان کر دیتی ہے/ کوئی جنگل اُگ آتا ہے/ اور ایک زمانہ۔۔۔۔ معدوم ہو جاتا ہے/ ہر روز کوئی نیند ٹوٹ جاتی ہے/ کوئی آنکھ لگ جاتی ہے/ کوئی دل بیٹھ جاتا ہے/ اور کوئی زخم بھر جاتا ہے/ ایک قصہ ادھورا رہ جاتا ہے/ ہر قصے کی طرح/ کوئی گیت سو جاتا ہے/ کوئی تان اُلجھ جاتی ہے/ کوئی سانس پھول جاتی ہے/ اور خاموشی چھا جانے سے پہلے/ کوئی دھن چھڑ جاتی ہے/ انگلیاں چلتی رہتی ہیں/ تار ٹوٹتے رہتے ہیں!/ ہر روز کوئی بارش تھم جاتی ہے/ کوئی زمین سُوکھ جاتی ہے/ کوئی چولہا سرد ہو جاتا ہے/ کوئی بستی اُجڑ جاتی ہے۔۔۔۔ کسی تعمیر کے نواح میں/ کوئی خوشبو سو جاتی ہے/ ایک دریا اپنا رخ تبدیل کر لیتا ہے/ اور کناروں پر ایک آگ جل اٹھتی ہے/ ہر روز کوئی پھول کھل اٹھتا ہے/ کوئی ہوا چل پڑتی ہے/ کوئی مٹی اُڑ جاتی ہے/ اور بکھر جاتی ہے/ ہونے کی لذت سے سرشار چہروں پر/ کوئی کھڑکی بند ہو جاتی ہے/ اور کوئی دروازہ کھل جاتا ہے/ کھلا رہتا ہے دیر تک/ کوئی پہیہ رک جاتا ہے/ کوئی سواری اُتر جاتی ہے/ کوئی پتہ ٹوٹ جاتا ہے/ کوئی دھول بیٹھ جاتی ہے/ اور ایک سفر تمام ہو جاتا ہے/ شاخ جھول جاتی ہے/ اور کوئی پرندہ اڑ جاتا ہے/ ان دیکھی فضائوں کی جانب/ ہر روز میری آنکھ سے تمہارے لیے/ ایک آنسو گر جاتا ہے/ ہونٹوں سے ایک دعا اتر جاتی ہے/ دل میں ایک دھاگا ٹوٹ جاتا ہے/ اور ایک دن۔۔۔۔ گزر جاتا ہے/ دنوں پر دن گرتے چلے جاتے ہیں/ گھاس پر سوکھتے پتوں کی طرح/ مٹھی سے گرتی ریت کی طرح/ ہوا میں بہتے بادلوں کی طرح/ اور ایک روز۔۔۔۔۔/ موسم گدلا جائیں گے/ چہرے ساکت ہو جائیں گے/ شور تھم جائیں گے/ سارے دن/ میرے اندر غروب ہو جائیں گے/ اور آتے ہوئے روز میں۔۔۔۔/ ٹوٹا ہوا قلم/ ایک نام کا دھبّا/ اور کٹی ہوئی انگلیوں کے نشان/ رہ جائیں گے!
آج کا مطلع
شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں تھا کوئی ہے بھی کہ نہیں